کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 257
چاہیے کہ اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہو۔ قوت اور جدو جہد کا مادہ خیالات اور خوابوں سے پیدا نہیں ہوتا۔ مبالغہ آمیز خیالات نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ حقائق سے اجنبیت اور بصیرت سے دوری ہے۔ جب کہ ہمارے دین کی اولین ترجیحات میں سے صاحب بصیرت ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّٰهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّٰهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٠٨﴾ (یوسف:۱۰۸)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجیے! یہ میرا راستہ ہے ، اور میں پوری بصیرت سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں ، میں اور میرے متبعین ( بصیرت پر ہیں ) اور میں مشرک نہیں ہوں ۔ ‘‘
ہدف کے حصول میں صاحب بصیرت ہونے سے اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اچھے اور برے پہلوؤں کی وضاحت کے ساتھ مشکلات اورانجام کھل کر سامنے آتے ہیں ، جن کی بنا پر ہدف کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔
قوت اور جذبات صرف خیالوں سے نہیں ملتے ۔ بڑھ چڑھ کر خواب دیکھنا زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے اور ترقی کی صلاحیت اور دماغی قوت کو تباہ کردیتا ہے۔زیادہ خواب دیکھنے والے خیالی سپنوں کے پنچھی ہوتے ہیں ؛ اوروہ حقیقی زندگی سے بہت باہر نکل چکے ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ خیالوں کی دنیا میں بسنے سے طرح کے اشکالات اور سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ انسان کی عملی دنیا میں کارگزاری کرنے بجائے اوہام اور خوش فہمیوں اور منصوبہ بندیوں میں وقت گزارتا ہے۔اسی لیے حدیث میں خواہ مخواہ کے سوالات اٹھانے ، اور لمبی امیدیں رکھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَا یُحِبُّ اللّٰہُ إِضَاعَۃَ الْمَالِ وَلَا کَثْرَۃَ السُؤَالِ وَلَا قِیْلَ وَقَالَ)) [1]
[1] مسند أبي یعلی الموصلي ،عن شہر بن حوشب ، ح: ۶۵۹۱۔ قال حسین سلیم أسد : إسنادہ صحیح۔مسند البزاز ؛ مسند أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ ؛ ۸۴۶۳۔وفي معناہ حدیث في موطأ إمام مالک ، باب : ماجاء في إضاعۃ المال وذي الوجہین،ح: ۳۶۳۲۔