کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 255
لوگ مخصوص ہونے چاہئیں جو اسے بطریق ِ احسن پورا کرسکیں ،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴿١٢٢﴾ (التوبہ:۱۲۲)
’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بچ سکیں ۔‘‘
یہ آیت ذمہ داریوں کی تقسیم اور اعمال کی تخصیص میں ایک بنیادی دستور کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں واضح ہدایت ہے کہ سارے لوگ جہا دکے لیے نہ نکل پڑیں ؛ بلکہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو علم وتعلم سے وابستہ رہیں تاکہ مجاہدین کے واپس آنے پر انہیں احکام ِ شریعت سے روشناس کرائیں ۔ کیونکہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان ایک وقت میں بہت سارے کام یکدم سر انجام دے سکے۔ بلکہ اس میں الٹا وقت اور صلاحیتوں کا ضیاع اور نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ مَّا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ﴾(الاحزاب :۴)
’’اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘
یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسانی طاقت وقدرت ایک ہی وقت میں کئی امور بجالانے سے قاصر ہے۔ اس کے لیے ذمہ داریوں کی تقسیم اورمناصب کی تخصیص ہونی چاہیے۔
تنظیم سازی کی اہمیت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی تقسیم اور منصوبہ بندی سے متعلق سیّدناحضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی تربیت کرتے ہوئے فرمایا:
((یَا حَنْظَلَۃُ ! سَاعَۃً وَّسَاعَۃً، وَلَوْ کَانَتْ قُلُوْبُکُمْ کَمَا تَکُوْنُ