کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 254
ابن سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تاکہ ایک دوسرے کے خدمتگار اور مددگار بن کرکام کرو۔‘‘[1] کیوں کہ باہم واجبات کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مجاز افسران ؛ اورمتعلقہ لوگوں کی بات مان کر چلا جائے؛ اور اس عمل کو پوری امانت داری سے بجا لایا جائے۔ وقت کی عمدہ تنظیم سازی اور اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے آنے والے بذیل مراحل کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے: ۱۔ روزانہ کے کاموں کا ٹائم ٹیبل۔ ۲۔ ہفتہ وار اور ماہانہ کاموں کی ترتیب۔ ۳۔ بعض امور میں دوسروں کی خدمات کا حصول۔ ۴۔ کام کے لیے مناسب جگہ اوروقت کی تلاش۔ ۴۔ اعمال کی تنظیم: … تاکہ ہر شخص کے لیے اس کی تعلیم ، قابلیت ؛ مہارت اور تجربہ کے مطابق ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں ۔ اور ہر انسان اپنی ذمہ داری کو اچھی صورت میں واضح طور پر مکمل کرسکے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ‎﴿٥٥﴾ (یوسف:۵۵) ’’(یوسف علیہ السلام نے) کہا کہ مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے کیونکہ میں حفاظت بھی کر سکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں ۔ ‘‘ اس موقع پر ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا جانکار اور باصلاحیت امانتدار انسان ہو جو کہ آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرسکے ؛ تو سیّدناحضرت یوسف علیہ السلام نے اس مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا تاکہ وہ مستقبل میں مشکلات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ سازی کرکے اسے نافذ کرسکیں ۔ اور یہی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دی ہے کہ ہر کام کے لیے کچھ
[1] قرطبی ۱۶/۸۳۔