کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 253
تحدید ؛ اور پھر اعمال کو مختلف مجموعوں میں تقسیم کرنا تاکہ ہر کام پر ایسے شخص کی ذمہ داری لگائی جائے، جس میں اس کام کو بطریق ِ احسن بجالانے کی شرائط موجود ہوں ؛ اور اس کے ساتھ ہی اس کی تمام شرائط اور حقوق کی وضاحت ، ادارہ کے اندرونی اوربیرونی تعلقات ، افسر اور ما تحت ، اور باہر سے ادارہ کے ساتھ تعاون کرنے والے خواہ وہ افرادی شکل میں ہوں یا تنظیمی شکل میں ان کے ساتھ تعلقات اور تعاون ، اپنے انفرادی کاموں کی ترتیب اور ترجیحات اور اوقات کا تعین تنظیم سازی کہلاتا ہے۔ ‘‘ ان سارے امور کو شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق ہی طے کرنا چاہیے تاکہ انسان اپنے اہداف کو مکمل کرسکے۔ ۳۔مناصب کي تقسیم: …کوئی بھی ادارہ خواہ وہ خدمت خلق سے تعلق رکھتا ہو ، یا تجارت وصناعت اور دیگر گھریلو یا انتظامی امور سے، اس میں کئی ایک لوگ اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پرکمر بستہ پائے جاتے ہیں ۔ جن کے آپس میں مناصب اور مراتب ، کام کرنے کی صلاحیتیں ؛ تعلیمی قابلیت اور مہارت وتجربات مختلف ہوتے ہیں ؛ اور اسی لحاظ سے ذمہ داریاں بھی تفویض کی جاتی ہیں ۔ کوئی افسر بالا ہے تو کوئی ماتحت ؛ کوئی معاون ہے تو کوئی اصل کارندہ اور جوابدہ۔ یہ سارے اگر آپس میں مل جل کر اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے نہ چلیں تو ادارہ کی لمبی دیر تک کامیابی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ﴾(الزخرف :۳۲) ’’ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کیے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ اسکی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ تاکہ ایک دوسرے کے ماتحت ہو کر کام کریں ۔‘‘