کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 251
در پے پریشانیاں ، جسمانی اور روحانی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہے، بلکہ وقت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع بھی ہوجاتا ہے۔ اپنے شب وروز کے اعمال کو متعین کرنے اور آئندہ کیلئے منصوبہ بندی کرنے سے نہ صرف وقت بچایا جاسکتا ہے ، بلکہ ہر کام کو اپنے وقت پرسرانجام دیا جاسکتا ہے۔ نظام الاوقات اہم سے اہم تر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے۔ اس کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان عین وقت پر سوچ بچار اورالجھنوں میں وقت ضائع نہیں کرتا، بلکہ وہ مقررہ وقت پر پوری دل جمعی کے ساتھ وہ کام کیا جاتا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور زمانہ کتاب’’ نیرنگ خیال‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ وقت ایک پیرہن کہن سال کی تصویر ہے ،اس کے بازؤوں میں پریوں کی طرح پرِ پرواز لگے ہیں ، کہ گویا ہوا میں اڑتا چلا جاتاہے ، ایک ہاتھ میں شیشۂ ساعت ہے کہ جس سے اہل علم کو اپنے گزرنے کے انداز دکھاتا جاتاہے، اور ایک میں درانتی ہے کہ لوگوں کی کشت امیدیا رشتہء عمر کو کاٹتا جاتا ہے۔یہ ظالم خونریز ہے،کہ جودانا ہیں اسے پکڑ کر قابو کرلیتے ہیں ،لیکن اوروں کی چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں ، اس کی چوٹی آگے رکھی ہے،اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ قابو میں نہیں آسکتا،ہاں جو پیش بین ہو ،وہ پہلے ہی سے روک لے۔‘‘[1] سو جس کام کے لیے جو وقت مقرر ہو، اسے اس وقت پرادا کیا جائے۔اور جس کام کی ضرورت ہوکہ اسے جلدی کیا جائے، اس کے لیے کسی دوسرے اہم کام کو مؤخر بھی کیا جاسکتا ہے، مگر بالکل چھوڑا نہ جائے۔ کسی بھی کام کے دیر پا ، مثبت اور عمدہ نتائج حاصل کرنے کیلئے بذیل طریقۂ کار پرعمل کیا جاسکتا ہے : ۱۔ہدف کا تعین : یہ منصوبہ بندی کا سب سے اہم ترین خاصہ ہے۔ اور اس چیز کی طرف قرآن نے ہماری
[1] نیرنگ خیال ص۱۱۔