کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 246
فصل دوم: وقت کی بچت وقت کیسے بچایا جائے؟ ، اور اس سے کس طرح خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جائے؟ …یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور ، اور صاحب علم و دانست انسان کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو یہ بات جان لے کہ اسے دنیا میں صرف نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں پیدا کیا گیا؛ بلکہ اس چار روزہ حیاتِ مستعار کا لمحہ لمحہ ہمارے پاس امانت ہے اور اس زندگی کے کچھ مقاصد ہیں جنہیں پورا کرنا اس امانت کی ادائیگی کا تقاضاہے ۔ پس اس صورت میں ہی وقت کو ضائع ہونے سے تب ہی بچایا جاسکتا ہے جب دل میں وقت کی قدر وقیمت کا احساس ہو۔اور انسان اپنے کاموں کو ایک نظام کے مطابق ترتیب دے۔ جن لوگوں نے اس قدر وقیمت کو جانا، ان کا بیان یہاں ممکن نہیں ، پس ایک مثال کافی ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے عامر بن عبدقیس رحمہ اللہ مشہور تابعی سے بات کرنا چاہی ، تو انہوں نے کہا: ’’ سورج کی گردش روک دو، تاکہ میں تم سے بات کرنے کے لیے وقت نکالوں ۔ ‘‘ اس سے مقصود یہ نہیں کہ انسان اپنے امور دنیا کو بالکل سرے سے ترک کردے ، اور جوگی بن کر بیٹھ جائے ، ہر گز نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّہْبَانِیَۃٌ ؛ وَإِنَّ رَہْبَانِیَۃَ أُمَّتِيْ الجَہَادُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ)) [1] ’’بیشک ہر امت میں ایک رہبانیت ہوتی ہے ، اور بیشک میری امت کی رہبانیت(ـجوگ) جہاد في سبیل اللہ ہے۔‘‘
[1] سنن سعید ابن منصور ، ح: ۲۳۰۹۔شعب الإیمان ، الباب السادس و العشرون ؛ ح: ۴۲۲۷۔ السنۃ للبغوی؛ مسند أحمد۔