کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 239
ایک اور مقام پر کہا : پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے پہلی بار چاندپر جانے والے سیاحوں نے وہاں کچھ آوازیں سنیں ۔ واپس آکران سائنس دانوں نے مختلف ملکوں کا سفر کیا ، اور مصر بھی گئے ،وہاں بھی ان سائنس دانوں نے وہی چاند والی آواز سنی ؛ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ اذان ہے ، جو وہ مسلمان عبادت کے لیے ہر روز دیتے ہیں ۔ قریب تھا کہ وہ مسلمان ہوجاتا ، مگر امریکہ نے اسے قتل کروادیا ؛ شاعر نے کیا خوب کہا: تہہ زمین کی سرِ آسمان نہیں جاتی کہاں کہاں یہ ندائے اذان نہیں جاتی لیکن کیا چاند پر جانے والے یہ گمان کرتے تھے کہ وہ رب کو عرش پر بیٹھے ہوئے پائیں گے، اور جنت کو دیکھ لیں گے جس میں حوریں ریشمی لباس میں چل پھررہی ہوں ، اور جہنمیوں کو دیکھیں اور ان کی چیخ وپکار سنیں گے۔اور نہر کوثر کے بہنے کی آواز سن سکیں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ جب کہ انبیا بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکے:﴿ قَالَ لَنْ تَرَانِيْ ﴾’’فرمایا: تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((نُوْرٌ أَنّٰی أَرَاہُ۔)) [1] ’’وہ تو ایک نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا۔‘‘ نظر کا حاکم ، دلوں کامالک خرد کا صانع جمال اس کا جلال اس کا اسی کو زیبا ہے لَنْ تَرَانِي اللہ تعالیٰ تو ان کے متعلق فرما چکے ہیں :
[1] مسلم کتاب الإیمان، باب قولہ: نورٌ أنّٰی أراہ؛ ح:۲۸۷۔