کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 236
ہے۔ سیّدناحضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی من جملہ وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ راہزن تھے، اور راہوں میں ڈیرے ڈالتے تھے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ﴾(العنکبوت:۲۹) ’’ اور تم راہ زنی کرتے ہو، اور اپنی محفلوں میں بری حرکات کرتے ہو۔‘‘ خواہ مخواہ راہ میں بیٹھ کر لوگوں کو ان کی جان ومال میں تکلیف دینا یہ بھی راہزنی ہے۔ سوچیں تو بلا مقصد راہ میں بیٹھنا، ہر آنے جانے والے کو تکتے رہنا ، لوگوں پر پھبتیاں کسنا ،ہلڑ بازی ، ہنگامہ آرائی کون سا شریف آدمی اسے اچھا سمجھتا ہے۔ پھر اس دور میں جب فتنہ عام ہو، یہ اور بھی بڑی مصیبت بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت کی ، جو راہ میں بیٹھ کرلوگوں کو تکلیف دینے کا سبب بنتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ آذَیْ الْمُسْلِمِیْنَ فِيْ طُرُقِھِمْ وَجَبَتْ عَلَیْہِ لَعْنَتُھُمْ۔))[1] ’’ جس نے مسلمانوں کو ان کے راستے میں تکلیف دی ، اس پر ان کی طرف سے لعنت واجب ہوگئی۔ ‘‘ اگر راہ میں بیٹھنا ہی ہو ، تو پھر اس بیٹھنے کا حق ادا کیا جائے۔ وہ حق یہ ہے: ’’ حرام کام سے اپنی نظر کو بچاکر رکھے۔ لوگوں کو تکلیف نہ دی جائے؛ ہر سلام کرنے والے کو جواب دیا جائے؛ برا کام کرنے والے کو منع کیا جائے ، اور نیکی کا حکم دیا جائے؛ گم راہ کو راہ دکھائی جائے؛ پریشان حال کی مدد کی جائے؛ منزل کے متلاشی کو اس کی منزل کا پتہ بتایا جائے۔‘‘ اور ایسے بیٹھنے میں برے لوگوں کی صحبت سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ کسی وقت یہ بری
[1] أخبار أصبہان لأبي نعیم الأصبہانی ،ح:۱۲۹۱۔ المعجم الکبیر للطبراني ، ح: ۳۰۵۰۔ الترغیب و الترہیب؍حسن۔