کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 235
تاکہ پریشانی سے محفوظ رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((مَا مَلَأَ آدَمِيٌ وِعَائً شَرّاً مِنْ َبطَنِہٖ، حَسْبُ ابْنُ آدَمَ لُقَیْمَاتٍ،
یُقِمْنَ صُلْبَہٗ، فَإِنْ کَانَ لَا بُدَّ فَاعِلاً،فَثُلُثٌ لَطَعَامِہٖ،وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ ،وَثُلُثٌ لِنَفْسِہٖ۔))[1]
’’ ابن آدم کبھی پیٹ سے زیادہ برے کسی برتن کو نہیں بھرتا، آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا کردیں ، اور اگر وہ لازمی طور پر زیادہ کھانا ہی چاہتا ہوتو اس کے پیٹ کا تیسرا حصہ کھانے کے لیے ہے، اور تیسرا حصہ پینے کے لیے ، اور تیسرا حصہ ہوا کے لیے ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیُبِیْتَنَّ قَوْمٌ مِنْ ہَذِہٖ الأُمَّۃِ عَلَی طَعَامٍ وَّشَرَابٍ وَّلَہْوٍ، فَیُصْبِحُوا قَدْ مَسَخُوا قِرَدَۃً وّخَنَازِیْرَ۔))[2]
’’ اس امت کے کچھ لوگ رات کھانے پینے پر اور لغو باتوں ( کھیل ومستی )میں گزاریں گے، اور جب صبح ہوگی تو ان کی شکلیں بندر اور خنزیر کی شکلوں سے بدل دی جائیں گی۔‘‘
اپنا محاسبہ کیجیے ! کہیں ہم بھی ایسے ہی فضول کام تو نہیں کررہے ؟ شاعر کہتا ہے :
طے ہورہی ہے منزل چونکو کہ وقت کم ہے
ملک فنا کی جانب ہر سانس ایک قدم ہے
۳۱۔راہوں میں ڈیرہ ڈالنا:
نہ جانے کس نے رسم بد نکالی ، مگر یہ برائی بھی پھیل گئی۔ اس کی تاریخ بھی بہت پرانی
[1] صحیح ابن حبان کتاب الأطمعۃ ،باب آداب الأکل ،… ح:۵۳۱۲۔ سنن ابن ماجۃ ، کتاب الأطعمۃ باب الاقتصاد في الأکل ،ح:۳۳۴۶۔ احمد ؛ الترمذی کتاب الذبائح، باب : أبواب الزہد عن رسول اللہﷺ ، باب : ماجاء في کراہیۃ کثرۃ الأکل ،ح:۲۳۵۹۔
[2] مسند الطیالسي ،أحادیث أبي أمامۃ الباہلي ،ح:۱۲۱۸۔المعجم الصغیر للطبرانی ، ح:۱۶۸۔