کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 233
الْحَرَامِ ؛ فَمَنْ تَرَکَھَا اسْتَبْرَائً لِّدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ فَقَدْ سَلِمَ؛ وَمَنْ وَاقَعَ شَئْیاً مِّنْہَا یُوْشَکُ أَنْ یَّوَاقِعَ الْحَرَامَ۔))[1] ’’بے شک حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان کے درمیان بہت ساری چیزیں مشتبہ ہیں ۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ یہ حلال ہیں یا حرام۔ سو جس نے ان کو اپنا دین اور عفت بچانے کے لیے چھوڑ دیا وہ محفوظ رہا، اور جو کوئی ان میں سے کسی چیز میں ملوث ہوا، قریب ہے کہ وہ حرام میں پڑ جائے۔ ‘‘ جب ایسی صورت حال پیش ہو کہ ہوٹل پر کھانا ہی ضروری ہے ؛ اور آپ ہوٹل والے کو جانتے نہیں کہ وہ مسلمان ہے بھی یا نہیں ؛ تو اس صورت میں اس سے پوچھ لینا ہی بہتر ہے۔ جب آپ کسی کو جانتے ہوں کہ مسلمان ہے، اور اس کے ہاں حلال پکتا ہے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ؛ سوائے اس صورت کے اس کے متعلق واضح ، یقینی اور ناقابل ِتردید شکایت اور شہادت ملی ہو۔ ۲۹۔حقوق کا ضیاع : انتہائی برا ہے وہ انسان جو حرام وحلال اورجائز و ناجائز کی تمیز ترک کرکے؛ آداب و اطوار کو بالائے طاق رکھ کر کھانے پینے کے لیے مرتا ہے، جس میں نہ صرف قیمتی وقت ضائع کرتا ہے بلکہ صحت اور مال کا بھی نقصان کرتا ہے۔ پھراتنا کھالیتے ہیں کہ پیٹ میں کثرت طعام کی وجہ سے نیند نہیں آتی ؛ اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس کے پڑوس میں ، دوسری گلی یامحلے میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ساری رات بھوک کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ کیا اسلام کی اعلیٰ تعلیمات میں پڑوسی کا خیال رکھنے کا حکم نہیں دیا گیا؟ سیّدناحضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے ، دنیا ہی جس کی خواہش ہو، اوربرائیاں جس کا عمل ہوں ، پیٹ تو بہت بڑا ہے مگر سمجھ بہت کم ہے۔ اپنے دنیا کے کام تو بڑے
[1] البخاری کتاب لإیمان ، باب فضل من استبراء لدینہ، ح:۵۲۔ مسلم کتاب المساقاۃ ؛ باب:أخذ الحلال وترک الشبہات ،ح:۳۰۸۱۔