کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 232
گئے ہیں ۔ اور پھر گلوبل دنیا کے اس دور میں جہاں کئی قسم کے دور دراز کے سفرپیش آتے ہیں ،اور وہاں پر قیام کے حالات اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ انسان گزر اوقات کے لیے ،اور راحتِ نفس کی خاطر ہوٹلوں کی طرف رجوع کرے۔تو کھانے پینے میں احتیاط ضروری ہے۔ کچھ خود ساختہ معزز لوگوں نے ہوٹلوں میں قیام وطعام کو ترقی یافتہ تہذیب اور جدت پسندی کی نشانی بنالیا ہے۔ غالباً ایسے ہی لوگوں کے متعلق اکبر الہ آبادی مرحوم نے کہا تھا: کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جاکر عمومی طور پر ایسی دعوتوں میں ایک تو لوگ وقت پر نہیں پہنچتے دیر سے آتے ہیں ، اور گھنٹوں انتظار میں ضائع ہوجاتے ہیں ، اور پھر اس کے بعد جب آرڈر پر کھانے تیار کروائے جاتے ہیں تو اس میں بھی اچھا خاصا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ جس کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں ہے ۔ انسان جہاں بھی رہے، وہ اپنے نفس پر کنٹرول کرنے میں خود مختار اور حاکم ہے۔ یہ ذہن نشیں رہنا چاہیے کہ ہمیں ہر پل کا حساب دینا ہے۔ اگرہم نیک اعمال نہیں کرسکتے ؛ تو کم از کم حرام کاموں سے دور رہنا چاہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ،جب تک شک والی چیزوں سے پرہیز نہ کرلیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ الْحَلاَلَ بَیِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ، وَدَعْ مَا یَرِیْبُکَ إِلَی مَا لَا یَرِیْبُکَ۔))[1] ’’ بے شک حلال واضح ہے اور بے شک حرام واضح ہے جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کر جو شک میں نہ ڈالے ۔‘‘ دوسری روایت ہے : ((إِنَّ الْحَلاَلَ بَیِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ، وَبَیْنَ ذَلِکَ أُمُورٌ مُشْتَبِہَاتٌ، لَا یَعْلَمُہُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ أَمِنَ الْحَلاَلِ ہِيَ أَمْ مِنَ
[1] سنن الدارمي ، باب :الفتیا وما فیہ من الشدۃ، ح:۱۶۵ ۔ قال حسین سلیم أسد : أسنادہ جید۔صحیح الجامع الصغیر۳۱۹۴۔