کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 229
’’ اور جس دن ہر نفس اپنے سامنے حاضر پالے گا جو کچھ اس نے کیا ہے خیر کا کام، اور اور جو کچھ برا کیا ہے۔ اور وہ چاہے گا کاش! اس کے اور اس عمل کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے نفس سے ڈراتا ہے ، اور اللہ اپنے بندوں کے ساتھ بڑا مہربان ہے۔ ‘‘ ۲۷۔ کھانا پینا اور ضیاع وقت : بعض لوگ ا چھے سے اچھا کھانا کھانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ بہت بہتر ! اچھا تصور ہے کہ آپ نعمت کا استعمال کم از کم اپنے نفس پرکررہے ہیں ۔ مگر؛سوچئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب تھے ، مگر بھوک سے کبھی کبھار حالت ایسی سخت ہوجاتی کہ آپ گھر سے نکلنے پر مجبور ہو جاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں خالی پیٹ اور پیاسا دل ہی گھر سے نکالتے تھے۔ کئی کئی دن مسلسل بھوکے رہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو شام کا کھانا میسرنہ ہوتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اکثر وبیشتر کھانا جو کی روٹی ہوتا تھا۔‘‘ اے کاش ! کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جَو کی روٹی بھی سیر ہوکے کھائی ہوئی ہوتی۔‘‘[1] حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی روٹی بھی کبھی دو دن مسلسل پیٹ بھر کر نہیں کھائی، یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘[2] جو کی روٹی ؛اورمیں اور آپ ان نعمتوں کے متعلق کیا کہتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں ؟ کیا ہم نے ان پر اللہ کا شکر ادا کردیا ہے ؟ یا اللہ ! ہمیں آزما کر رسوا نہ کرنا ، کیونکہ ہم کمزور ہیں ، آزمائش کے قابل نہیں ۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین سیّدہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرماتی ہیں :
[1] البحر الزخار مسند البزار ، ح: ۳۰۴۰۔ [2] صحیح مسلم ، کتاب الزہد والرقائق ، ح:۵۳۸۷۔