کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 227
’’اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے تاکہ میں اس دنیا میں جاکر نیک عمل کر سکوں ، جواب ملے گا، ہرگز نہیں …’’(یہ ایک ویسے ہی بات ہے جو وہ اپنی زبان سے کہہ رہا ہے ،اگر اس نے عمل کرنا ہوتا تو ہم نے اسے عمر دی تھی تاکہ وہ نیک عمل کرسکے)۔‘‘ اس وقت ہر انسان کو لا محالہ اپنے کیے کا بدلہ پانا ہے، اور عمل کا جواب دینا ہے ، جیسا کیا ہوگا ، ویسا ملے گا: غَداً تُوَفَّی النَفُوسَ مَا کَسَبَتْ وَیَحْصِدُ الزَّارِعُونَ مَا زَرَعُوْا إِنْ أَحْسَنُوْا أَحْسَنُوْا لِأَنْفُسِھِمْ وَإِنْ أَسَاؤُوْا فَبِئْسَ مَا صَنَعُوْا ’’کل ہر نفس کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے گا اوربونے والوں نے جو کچھ بویا تھا وہی کاٹیں گے۔ اگر انہوں نے اچھائی کی ہے تو اپنے نفسوں کے لیے اچھائی کیہے ، اور اگر برائی کی ہے ،تو بہت ہی برا ہے جو انہوں نے کیا۔‘‘ اس کے برعکس اہل ذکر کو انعام و اکرام سے نوازا جاتاہے، ان پر رحمتوں کی بارش ، اور فرشتوں کا نزول اور اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ’’جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں آسمانوں سے ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے ، رحمت ان پر سایہ فگن ہو جاتی ہے ، اور فرشتے اس محفل کو گھیر لیتے ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتے ہیں ۔‘‘ [1] ہمارا ساتھ دیجیے، ہمارے پیغام پر لبیک کہیں ؛ اور اپنے ان فارغ اوقات کو اللہ کے ذکر سے ثمر آور بنانے کی کوشش کریں ! اللہ کے ذکرسے، درود مصطفی سے؛ نماز اور قیام سے ، تبلیغ
[1] مسلم کتاب الذکر والدعاء …، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن ؛ح:۴۹۷۴۔