کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 225
ہے جس میں کسی بھی دوسروں کے لیے یا اپنی ذات کے نقصان یا ضرر کا کوئی بھی پہلو مخفی ہو، خواہ وہ دنیا کے لحاظ سے نقصان ہو یا آخرت کے لحاظ سے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ‎﴿١٤٠﴾‏ (النساء:۱۴۰) ’’ اور تحقیق اس نے آپ پر کتاب میں یہ حکم نازل کیا ہے ، کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہو، اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہو، تو ان کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو ، جب تک کہ وہ دوسری بات میں نہ لگ جائیں ؛ بے شک تم بھی اس وقت ان ہی میں سے ہوجاؤگے ؛ بے شک اللہ منافقین اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔‘‘ فرصت کی گھڑیاں کتنی بڑی نعمت ہیں اس کا احساس شاید بہت کم لوگوں کو ہے۔ جوانی قدرت کا کتنا حسین تحفہ ہے ، اہل خرد ہی اس بات کو جانتے ہیں ۔اگر ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے فائدہ اٹھایا جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے؛ مگر ان گھڑیوں کو ہم خود مستقبل میں اپنے لیے حسرت کاسامان بنارہے ہیں ۔ آیت کریمہ میں واضح طور پر ایسے لوگوں کی صحبت سے ممانعت کاحکم ہے جو اللہ کی آیات(یعنی شریعت ِ اسلامیہ اور اس کے احکام) کا مذاق اڑاتے ہوں ۔ اوریہ ضروری نہیں کہ وہ آیات پڑھ پڑھ کر مذاق اڑا رہے ہوں ؛بلکہ حکم شرعی کو توڑنا، اللہ کی حدود کو پامال کرنا ؛یہ بھی آیاتِ الٰہیہ کا مذاق اڑانا ہے۔ جیسے کسی محفل میں غیبت ہورہی ہو، گناہ کی باتیں اور حکایات بیان ہورہی ہوں ؛ لوگوں پر طعنے کسے جارہے ہوں ، اور اللہ کی نافرمانی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہو۔کیونکہ آیت میں ایسے کاموں پر خاموش رہنے والے کو بھی اس گناہ میں برابر کا شریک قرار دیا ہے۔ انسان اس وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہت زیادہ غافل ہوتا ہے جب وہ ان نعمتوں میں گھرا ہوا