کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 224
جتنے نیک اعمال لے کر آئیں گے؛ سو اللہ تعالیٰ ان کو پراگندہ ذروں کی طرح کردیں گے ؛ جان لوکہ وہ تمہارے بھائی ہیں وہ بھی رات کو ایسے قیام کرتے ہیں جیسے تم کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جب تنہائی میں ہوتے ہیں ، تو اللہ کی حرمت کو پامال کرتے ہیں ۔ ‘‘ اپنے دل میں خوف الٰہی کو جگہ دیتے ہوئے خلوت وجلوت میں اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر پر ایمان رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حرکت کو دیکھ رہا ہے، اورہر بات کو سن رہا ہے ، اور کل کو وہ ہم سے ان امور کے بارے میں ضرور پوچھے گا؛ ہمیں برائی کے کاموں سے جتنا بھی ممکن ہوسکے پرہیز اور اجتناب کرنا چاہیے۔ نیٹ بھی اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے ، اس نعمت کا غلط استعمال کر کے اسے اپنے کل کے لیے وبال نہ بنائیں بلکہ اس کا استعمال ایسے ہونا چاہیے کہ کل یہ ہماری آخرت میں کام آئے۔ بس صحت مند فکر اور سلیم عقل کبھی بھی ایسی حرکات نہیں کرے گی جن کی وجہ سے اپنے تئیں ایک بہت ہی معمولی اور عارضی خوشی اور راحت یا خوش فہمی کی بنا پر ہمیں بہت بڑا اور حقیقی اورناقابل ِ برداشت نقصان اٹھانا پڑے۔ یہی مواقع داعی اور مدعو کا امتحان ہیں ۔ داعی کو لازماً قرآنی تعلیمات سے بہرہ مند ہونا چاہیے تا کہ اس کے قدم ڈگمگانے نہ پائیں ، ارشاد الٰہی ہے: ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ‎﴿١٩٩﴾ (الاعراف :۱۹۹) ’’عفو اور در گزر کو اپنائیے اور امر بالمعروف کا فریضہ سر انجام دیجیے اور جاہل لوگوں سے اعراض کیجیے۔ ‘‘ ۲۶۔کھیل تماشے اورذکر سے غفلت کی مجالس: پہلے یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ دین اسلام ہر قسم کی مثبت سرگرمیوں کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس کے لیے حدود و قیود بھی متعین کرتا ہے۔ اورایسی تمام سرگرمیوں کی نفی کرتا