کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 223
اس لیے ہم اپنے بھائیوں کو؛ بالخصوص وہ لوگ جنہیں علم ہے کہ وہ اپنے نفس پر ضبط نہیں رکھ سکتے ، منع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے حق میں ان کلبوں میں جانا حرام ہے۔ کیونکہ اس سے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہے۔ شریعت کا اصول ہے : ((مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلاَّ بِہٖ فَھُوَ وَاجِبٌ۔)) [1] ’’ جس چیز کے بغیر واجب پورا نہ ہو سکتا ہو اس کا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ‘‘ یاد رکھیں کہ کلب میں جانا اور وہاں کی حرکات اللہ سے پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے ، وہ ہر ایک کو اور ہر حال میں دیکھ رہا ہے؛وہ اللہ جو مسجد میں دیکھ رہا ہے ، وہ نیٹ کلب میں بھی آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جویہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہاں اللہ کی نظر سے اوجھل ہیں وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ‎﴿١٩﴾ (المؤمن: ۱۹) ’’ وہ جانتا ہے خیانت کرنے والی آنکھ کو اور جو کچھ سینوں میں پوشیدہ ہے۔ ‘‘ خلوت وجلوت ہر حال میں ضروری ہے کہ گناہوں سے بچا جائے ، خاص کر وہ گناہ جو خلوت میں کیے جاتے ہوں ؛ رات کی تنہائی اور تاریکی کسی کو اللہ سے دور نہیں کرسکتی ؛ اللہ ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَأَعْلِمَنَّ أَقْوَاماً مِنْ أُمَّتِيْ یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالَ [جِبَالِ] تِہَامَۃَ بَیْضَائَ فَیَجْعَلَہَا اللّٰہُ ھَبَائً مَنْثُوراً، أَمَا إِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَیَأْخُذُوْنَ مِنَ الْلَّیْلِ کَمَا تَأْخُذُوْنَ، وَلٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰہِ انْتَہَکُوْہَا۔)) [2] ’’ میں اپنی امت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے سفید پہاڑ
[1] ارشاد الفحول ۱/۱۳۶۔ [2] ابن ماجۃ باب : ذکر الذنوب ، ح: ۴۲۴۵۔)مسند الرویانی عن ابي عامر عن ثوبان و عدي ، ۱/ ۴۲۵۔صصحہ الألباني۔