کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 220
(( أَیُّمَا امْرَأْۃٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَی قَوْمٍ لِّیَجِدُوْا رِیْحَہَا فَھِيَ زَانِیَّۃٌ۔))1[1] ’’جو عورت عطر لگائے اور پھر مردوں کے قریب سے اس نیت سے گزرے کہ وہ اس خوشبو کو پالیں ، وہ زانیہ ہے ۔‘‘ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب وہ بن سنور کر ، معطر اور جاں فزا ہوکر بزم جہاں کی زینت بن ہی جائیں توپھر لوگ صرف بوئے گل پر ہی اکتفا کریں ، ادھر کو نظر ہی نہ ہو، ایسا نہیں ہوسکتا ؛ اور نہ اس درتک آنے والے ایسے ہیں کہ وہ اپنے ایک جلوہ سے کسی کو محروم رکھیں ؛ بقول شاعر : جب وہ جمالِ دل فروز ، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز ، پردے میں منہ چھپائے کیوں یہ سب باتیں درست اور صحیح ،لیکن دستورِ بہاراں کیا ہوگا ؟ انجام گلستاں کیا ہوگا ؟ آخر کار اس کے نتائج پر ، اور عاقبت پر نظر کون رکھے گا ؟ بے شک وہ پاک دامن اور عفیفہ عورت جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل بے پایاں سے دین پر استقامت کی نعمت ِگراں قدر سے نوازا ہو، اسے اپنی فضیلت و کرامت، بزرگی ووقار ، عفت و حیا ، پاکدامنی و شرافت؛ مرتبہ و منزلت اور اپنی عزت و حرمت ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوتی ہے، اور وہ ہرایک جگہ پر ایسے اختلاط اور میل جول سے بچ کررہتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لی جاتی ہو۔ بس ہمارا کام بھولے ہوئے کو یاد دلانا ، اور اہل ِ ایمان کے دلوں کو گرمانا ہے۔ ایک تو مومن خودایسے شکوک وشبہات کے امور سے بچ کررہے ، اور اپنے دوسرے بہن بھائیوں اور
[1] أخرجہ الحاکم في المستدرک ، في تفسیر سورۃ النور برقم ۳۴۹۷۔وصححہ الذہبي۔ وابن حبان في باب: الزنی و حدہ ،برقم ۴۴۲۴، ابو داؤد ، والنسائی في باب : ما یکرہ للنساء من الطیب ، برقم ۵۱۳۶۔