کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 217
اس میں جو برائیاں اور قباحتیں در آئی ہیں ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سرشام ہی لوگ جھنڈ در جھنڈ اور غول در غول پارکوں میں چلے آتے ہیں ۔ یہ عیاشی کے نئے أڈے ہیں جن کی زینتیں آج کل دوبالا ہو رہی ہیں ۔ بابو،بی بی اوربابا ، سارے اس میں برابر کے شریک ہیں ۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اکثر پارک حیاء سوز ملاقاتوں کے لیے ایک نقطہء ربط کا کام دیتے ہیں ۔ عورتیں اور مرد شتر بے مہار کی طرح گھومتے ہیں ۔ اور اکسکیوز می، ہیلو، ہائے، سوری، آئی لو یو ، کے حیا سوز ،غیرت شکن اور بے ہودہ جملے بکثرت سننے کو ملتے ہیں ۔ اس باپ اور بھائی کی غیرت کا جنازہ بھی اس وقت اٹھ جاتا ہے ، جب کوئی منچلا کسی کی بیٹی یا بہن کو چھیڑ کر سوری کے لفظ سے جان چھڑا لیتا ہے۔ اور کئی بار ایسے معاملات پر جھگڑے اور لڑائیاں ہوجاتی ہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے گرمی کی لہر سے خود کو بچانے ؛ اور تفریح طبع کے لیے یہ پروگرام بنایا تھا، اب وہ حرام سننے، حرام دیکھنے، اور حرام کہنے اور کرنے کی وجہ سے جہنم کے مستحق بن کر واپس جارہے ہوتے ہیں ۔ مگر یہ سب ہمارے اپنے گناہوں کی سزا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں اور مردوں کے اختلاط اور بے پردگی سے منع فرمایا تھا ، جس پر عمل نہ کرنے کے نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں ۔ لیکن کیا کوئی صاحبِ بصیرت اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے ؟ شاعر کہتا ہے : مقام پرورشِ نالہ وآہ ہے چمن نہ سیرِ گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَأَنْ یَّزْحَمَ رَجُلٌ خِنْزِیْراً مُتَلَطِّخا ً بِطِیْنٍ وَّحَمْأَۃٍ خَیْرٌ لَّہٗ مِنْ أَنْ یَّزْحَمَ مَنْکَبُہٗ مَنْکَبَ امْرَأْۃٍ لَا تَحِلُّ لَہٗ۔))[1] ’’ کوئی انسان ایک کیچڑ آلود خنزیر سے ٹکرائے ،یہ اس بات سے بہتر ہے کہ اس کا کندھا کسی ایسی عورت کے کندھے سے ٹکرائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ ‘‘
[1] المعجم الکبیر للطبرانی برقم ۷۸۳۰۔