کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 216
میں جاتے ہیں ، اور سب سے آخر میں وہاں سے نکلتے ہیں ،کیونکہ یہ شیطان کے ساتھ معرکہ کی جگہ ہے ،اور وہاں پر ہی شیطان نے اپنے جھنڈے گاڑے ہوتے ہیں ۔‘‘ [1] حقیقتاًبازار ایسے بیکار لوگوں کے لیے سب سے بری جگہ ہے جو بے سبب ہر وقت بازار کی زینت بنے رہتے ہیں ۔ ورنہ سچے اور امانت دارتاجروں کے لیے یہیں رہتے ہوئے ہی شھدا اور صالحین کے ساتھ جنت میں مقام تیار ہوتاہے۔لین دین، خریدو فروخت، انسانی ضروریات کی تکمیل یہ سارے کام یاتو بازار میں ، یا بازار کی وجہ سے ممکن ہیں ۔ لہٰذا جن لوگوں کا کام ہی بازار میں ہے ، وہ اس مذمت میں داخل نہیں ہیں ۔ عام لوگوں کے متعلق اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے وقت کو بازار میں کھیل تماشا میں گزارتے ہیں ، یا اس سے کوئی فائدہ مند بات حاصل کرتے ہیں ۔ کسی انسان کی توہین کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کہا جائے :فلاں بازاری آدمی ہے۔ یہ اس شخص کے لیے کہا جاتاہے جو بغیرکسی کام اور وجہ کے ہر وقت بازار میں بھٹکتا پھرے۔ ورنہ تاجراور کاروباری لوگ معاشرہ کے معزز اور خوش بخت افراد ہیں جن کی وجہ سے کئی لوگوں کی پریشانیاں حل ہوتی ہیں ۔ لہٰذا چاہیے کہ انسان اپنے کام اور مقصد کا تعین کرکے بازار جائے، اور مقصد پورا ہونے پر جلد سے جلد گھر لوٹ آئے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ … ﴾ (سبا:۱۵) ’’اپنے رب کے رزق میں سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ ۲۴۔ گلشن کی سیر: پارک ایک قسم کے شیطانی جال ہیں ۔جہاں ہر قدم پر اس کے کارندوں نے اپنے ڈورے بچھائے ہوتے ہیں ۔ اگر بازاروں کی زینت بن کر رسوائی کمانے میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ پارکوں نے پوری کردی۔ گل وگلشن کی سیر تو ایک اچھی بات ہے ، مگر عصر حاضر میں
[1] مسلم برقم ۲۴۵۱۔