کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 214
مطابق ہو، اگر نیت اللہ کی رضامندی کا حصول ہے ، مگر طریقہ وہ سنت کے مطابق نہیں تب بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ حدیث شریف میں راتوں کے قیام کو افضل عبادت کیا گیا ہے ، فرمایا: ((أَفْضَلُ الصَلاَۃِ بَعْدَ الْمَکْتُوْبَۃِ الصَلَاۃُ فِيْ جَوْفِ الْلَّیْلِ۔)) [1] ’’ فرض کے بعد سب سے بہتر نماز قیام اللیل(تہجد کی نماز) ہے۔ ‘‘ سیّدناحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((رَکْعَتَانِ خَفِیْفَتَانِ مِمَّا تَحْقِرُوْنَ وَ تَنْفَلُوْنَ یَزِیْدُہُمَاہَذَا - وَیَشِیْرُ إِلَی قَبْرٍ- فِيْ عَمَلِہٖ ، أَحَبَّ إِلِیْہِ مِنْ بَقِیَّۃِ دُنْیَاکُمْ۔)) [2] ’’ تمہاری دو رکعت نفل نماز جسے تم کم سمجھتے ہواور وہ ان کو اپنے عمل میں بہت سمجھتا ہے- یہ کہہ کر آپ نے قبر کی طرف اشارہ کیا- یہ دو رکعت تمہاری باقی ساری دنیا سے اس کے لیے بہتر ہیں ۔‘‘ گناہ کی تلخی یقینا ایمان اوراطاعت کی چاشنی اور خوش بختی کی لذت کے منافی ہے۔ جو دل کو ایمان اور توحید کی سیرگاہوں میں تلذذ سے مانع ہے۔ ایک شاعر نے اس امر کو یوں اپنے خیالات کے قالب میں ڈھالا ہے : شَکَوْنَا إِلَی أَحْبَابِنَا طُولَ لَیْلِنَا فَقَالُوا لَنَا: مَا أَقْصَرَ اللَّیْلُ عِنْدَنَا وَذَاکَ بِأَنَّ النَّوْمَ یَغْشٰی عُیُونَہُمْ یَقِیْناً وَّلَا یَغْشٰي لَنَا النَّوْمُ أَعْیُنَا ’’ ہم نے اپنے احباب سے رات کے لمبا ہونے کا شکوہ کیا۔ وہ ہم سے کہنے لگے : ہمارے لیے تویہ رات بہت ہی مختصر ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یقینا نیند ان کی آنکھوں کو ڈھانک لیتی ہے ، جب کہ ہماری آنکھوں میں نیند کا نام بھی نہیں ۔ ‘‘
[1] مسلم : فضل صوم المحرم ’ح: ۲۰۳۔ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ برقم ۳۴۷۰۲ ؛ المعجم الکبیر:۷۸۴۳۔