کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 210
’’ اور اللہ کی نشانیوں میں سے تمہارا دن اور رات کے وقت سونا ، اور رزق تلاش کرنا ہے ؛ یقیناً اس میں سننے والوں کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں ۔ ‘‘ مگر یہ صفات اس نسل میں کہاں ؟ معاملہ ہی الٹ ہوگیا؛لوگ دن کو سوتے اور رات کو جاگتے ہیں ۔ اور پھر رات کا جاگنا بھی بامقصد وبا منفعت کام کے لیے نہیں ، بلکہ فضول گوئی، اورلا یعنی کاموں کے لیے ہے۔ بلکہ بعض چمگادڑ صفت لوگ دن کو تو نظر نہیں آتے ، مگر رات کو مختلف چوراہوں ، گلیوں کی نکڑوں ، گراؤنڈز ، اور دیگر مقامات پر جا بجا اکیلے یاٹولیوں کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔ راتیں گپ شپ ، غیبت ، عیب جوئی ، بیہودہ گوئی ، ہاتھ و پاؤ ں اور سمع وبصرکے زناجیسے سراسرنقصان دہ امور میں گزرتی ہیں ۔ اکثر تو ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اس طرح کی مجلسیں رچانے والے اللہ کی یاد ، خوف الٰہی ، خوف محشر اور خوف عذاب قبر سے انتہائی دور اور لا پروا ہوتے ہیں ۔ کتنی ہی بڑی بد نصیبی ہے انسان کی کہ جو وقت اس کے رب کو راضی کرنے اور اس کے ساتھ سرگوشیاں کرکے اپنے گناہ معاف کروانے کا ہے ، اسے وہ لوگوں کے گناہ اپنے سر لینے اور نت نئے گناہ کمانے میں صرف کردیتا ہے۔اس وقت اور ان گھڑیوں کی قیمت کا احساس ذرا بھر بھی نہیں کرپاتا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مناجات کے لیے رکھی ہیں ۔ ایسے لوگ نہ ہی نماز ادا کرسکتے ہیں اورنہ نیکی کے کسی دیگر کام میں حصہ لے سکتے ہیں ، چونکہ شیطان ان پر مکمل طور پر غالب آچکا ہوتاہے۔ ان لوگوں کی پہلی قربانی اگر نماز عشاء ہوتی ہے تو قرب فجر میں پرانا اور ازلی دشمن شیطان ،دوستی کے روپ میں ، ہمدرد بن کر، تھکاوٹ کا احساس دلا کر نیند کی وادیو ں میں دھکیل دیتا ہے؛ تاکہ گناہ شب شرمندہ کی توبۂ و آہ سحر سے معافی نہ ہوجائے،اور اس کی تمام رات کی محنت ا ور خوشی پر پانی نہ پھر جائے۔ ایسے میں تھکاوٹ ، لاغر پن، اور سستی غالب آجاتی ہے ، اور شیطان جوں توں کرکے سلادیتا ہے۔ اور سب سے پہلی قربانی نماز فجرکی ادائیگی سے محرومی ہے۔