کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 21
میں وہ جذباتی نظر آرہے ہیں ، لیکن ملت بالخصوص نوجوانوں کی تئیں ان کی ہمدردی اور خیر خواہی قابل دید ہے ۔بلکہ ان کا یہ اسلوب ہم سب کے نیک جذبات کا ترجمان ہے ۔ کچھ لوگ بلاغت کے اصول ، فصاحت کے قواعد ؛ اور زبان دانی کے تعجیزی معائیر کا سہارا لیتے ہوئے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کو دوران مطالعہ اپنی عادت سنوارنے کے لیے کچھ مواقع بھی اس کتاب میں فراہم ہوں ۔ لیکن ہمارے فاضل دوست نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ وہ یہ کتاب لکھ کر ’’ اردو ادب ‘‘ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ، یا کوئی ادبی دستاویز تیار کرکے ’’کتب خانہ علم و ادب ‘‘ میں کوئی نیا اضافہ کررہے ہیں ۔ بلکہ ان کا ہدف اول و آخر رضاء الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ خواب غفلت میں پڑی امت کو بیدار کرنے میں حتی المقدر اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ اور میرے خیال میں وہ اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔ میں نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے شیخ شفیق صاحب سے اس کتاب کامراجعہ کرنے سے معذرت کی تھی۔ لیکن ان کا پر خلوص اصرار میرے انکار پر غالب رہا ؛ اور کسی طرح وقت نکال کر میں نے اس کتاب کو -گرچہ جلدی میں ہی - من و عن پڑھا ۔ اور خوب استفادہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ اس پیشکش کو اصحاب ایمان وعمل کے لیے ثابت قدمی اور خواب غفلت میں محو بھائیوں کے لیے بیداری اور تجدید عہد کا ذریعہ بنادے ۔ آمین ۔ طالب دعاء ابو شمس عبد اللطیف ال کشمیری فاضل اسلامی یونیو رسٹی مدینہ طیبہ تحریر ۱۰ / ربیع الاول / ۱۴۳۱ھ