کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 208
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اپنے صحابہ کو کسی اہم کام جیسے غزوہ وغیرہ پر بھیجتے تو صبح تڑکے منہ روانہ کرتے۔ زیادہ سونا ، بالخصوص فجر کے وقت سوتے رہنا ایک ایسا شیطانی عمل ہے جس کی وجہ سے انسان سے نشاط اور تازگی ختم ہوجاتی ہیں ،وقت کی برکت اٹھ جاتی ہے؛ اوروہ سارا دن سست اور تھکا ہوا رہتا ہے؛ جس کی وجہ سے وہ کئی ایک امور بطریق احسن سر انجام نہیں دے سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی ایک سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر بیٹھتا ہے اور تین گانٹھیں لگاتا ہے۔ اور کہتا ہے ابھی رات بہت لمبی ہے سوئے رہو۔ اگر انسان اس حال میں بیدار ہوگیا اور اللہ کا ذکر کیا تو ایک گانٹھ کھل جاتی ہے ، اور وضو کیا تو دوسری گانٹھ کھل جاتی ہے ، اور جب نماز پڑھتا ہے تو تیسری گانٹھ کھل جاتی ہے؛ اور صبح کے وقت وہ بالکل چست اورہشاش بشاش اور خوشگوار موڈ والا ہوتا ہے۔ اور اگرایسا نہ ہوا تو گندے نفس اور سستی وکاہلی کے ساتھ صبح کرتا ہے۔ ‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح وشام کے اوراد میں ایسے اوراد موجود ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اوقات میں برکت کا سوال کرتے؛ اورسستی وعاجزی سے پناہ مانگتے اور اپنی امت کو بھی اس کی تعلیم دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب تم میں سے کوئی ایک صبح کرے تو یہ کلمات کہے : (( أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ؛ اَللَّہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ خَیْرَ ہَذَا الْیَوْمِ فَتْحَہٗ وَنَصْرَہٗ وَنُوْرَہٗ وَبَرَکَتَہٗ ، وَہَدَاہٗ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْہِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہٗ۔)) [2] ’’ ہم نے صبح کی؛اور کائنات نے اللہ رب العالمین کے لیے صبح کی؛ اے اللہ !
[1] البخاری ، باب: صفۃ إبلیس و جنودہ ،برقم ۳۱۲۱۔ومسلم ، في کتاب الطہارۃ ، باب: الإیتار في الاستنثار و الاستجمار ، برقم ۲۳۸۔ [2] ابو داؤد:باب ما یقول إذا أصبح ؛ ح: ۵۰۸۶۔ حصن المسلم /حسن۔