کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 207
وقت کا ضیاع، نعمت الٰہیہ کی بے قدری، بہت بڑا گھاٹے کا سودا ہے۔ اہل خانہ مشقت برداشت کررہے ہوتے ہیں ، اور بڑے میاں خواب خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں ، اور جب سارے لوگ سو جاتے ہیں ، اس وقت ہلڑ بازی کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ درحقیقت اس انسان اورچمگادڑکے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا ، جو دن بھر درخت کے ساتھ الٹا لٹک کر سوتا ہے لیکن رات کو جاگتاہے۔ دن کو آنکھ کھل بھی گئی تو عالم یہ ہوتا ہے کہ بقول شاعر : ہے غیب ِ غیب جسے سمجھتے ہیں سب شہود ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے اسلام ہمیں جلدی سونے اور جلدی بیدار ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ صبح سویرے کیے جانے والے کام میں برکت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی ہے: ((اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِأُمَّتِيْ فِي بَکُوْرِھَا۔))[1] ’’ یااللہ ! میری امت کے صبح سویرے کے کاموں میں برکت ڈال دے۔ ‘‘ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (( یَا بُنِیَّۃُ ! قُوْمِي، اشْہَدِيْ رِزْقَ رَبِّکِ وَلَا تَکُوْنِيْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقْسِمُ أَرْزَاقَ النَّاسِ مَا بَیْنَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ إِلَی طُلُوْعِ الشَّمْسِ۔)) [2] ’’بیٹی ! اٹھیے؛اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہیے ا ور غافلین میں سے مت ہوجائیے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ طلوع فجر اورطلوع شمس کے درمیان لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں ۔‘‘
[1] سنن أبي داؤود ،باب: الابتکار في السفر،۲۶۰۶۔سنن الترمذي ،باب التبکیر في التجارۃ، ح:۱۲۱۲۔سنن ابن ماجۃ ،باب: ما یرجی من البرکۃ في البکور؛ ح: ۲۲۳۶۔ الجامع الصغیر ؛ صححہ الألباني۔ [2] شعب الإیمان، فصل : في النوم الذي ہو نعمۃ من اللہ ؛ ۴/۱۸۱؛ح:۴۷۳۵۔جامع الحدیث ،مسند فاطمۃ ، برقم ۴۳۴۹۶۔ کنز العمال ۴۲۰۲۸۔ ضعفہ بعض العلماء۔