کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 205
کفار کے ملکوں کے سفر کا شرعی حکم : ان ممالک کا سفر جہاں کفر ،گمراہی اور فساد پھیلا ہوا ہو، جیساکہ شراب نوشی، زنا اور اس کے ساتھ مختلف گمراہی اور کفر کے دیگر کام؛ ان علاقوں کا سفر کرنے میں مرد اور عورت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ کتنے ہی صالح لوگوں نے سفر کیا اور فاسق وفاجر بن کر لوٹے؛اور کتنے ہی مسلمان کفر کی حالت میں واپس پلٹے۔ ایسے سفر کے خطرات بہت ہی بڑے ہیں ۔پس واجب ہے کہ ایسے ممالک کا سفر نہ کیا جائے ؛نہ ہنی مون کے لیے اور نہ کسی اور غرض سے۔ ‘‘ اہل شرک کے ملکوں کا سفر کسی شرعی جواز(جیسے کہ علاج ،یا کوئی ایسا فن سیکھنے کے لیے جس کی تعلیم اسلامی ممالک میں نہ ہوتی ہو) کے بغیر جائز نہیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَنَا بَرِيئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُشْرِکِیْنَ۔))[1] ’’ میں ایسے ہر مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان میں رہتا ہو۔‘‘ سفر کی شرائط: ایسے ممالک کی طرف سفر کرنے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے : ٭ انسان کو اتنا علم ہو جس سے اپنے دین کے بارے میں شبہات کا رد کیا جاسکے۔ ٭ دین پر اتنی استقامت ہو کہ شہوت پرستی سے باز رہ سکے۔ ٭ یہ سفر اس قدر ضروری ہو کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ ٭ اس سفر میں شرعی امور کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے۔ ۲۱۔دن میں کثرت کے ساتھ سونا: دن اور رات کا لگا تار آتے جاتے رہنا ، ان میں مختلف قسم کے ایسے اسباب کا موجود ہونا جن کی وجہ سے حیات ِکونی میں رونقیں اور رعنائیاں آتی ہوں ؛ زینت اور مصلحتیں پوری ہوتی ہوں ، اور وجود کائنات کو استحکام ملتا ہو؛ ایسے امور اور مقاصد ہیں جن تک انسانی تفکر
[1] الترمذی، باب کراہیۃ المقام بین أظہر المشرکین ، ح: ۱۶۰۴۔ ابوداؤد؛ باب النہي عن قتل من اعتصم بالسجود ، ح: ۲۶۴۷۔ / فتاوی لجنہ دائمہ۔ ابن باز رحمہ اللہ/ فتاوی علماء بلد الحرام۔