کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 204
ایک حدیث میں ہے: ’’ شراب پینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘[1] اور فرمایا :’’ شراب کے عادی اور بتوں کے پجاری میں کوئی فرق نہیں ۔ ‘‘[2] مغربی معاشرہ میں یہ تمیز بالکل نہیں ہے۔ وہاں تقریباً اکثر محفلوں میں شراب موجود ہوتی ہے ، إلا یہ کہ کچھ غیرت مند،اور صاحب عزم وہمت،صابر مسلمان ہی اللہ کے فضل سے اس برائی سے بچ کررہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسے دستر خوان پربیٹھے جہاں شراب کے جام گردش کررہے ہوں ۔‘‘ [3] کیونکہ شراب کی لت ایسی مہلک عادت ہے کہ انسان اسے چھوڑنا بھی چاہے تو جلدی چھوڑی نہیں جا تی ، اگر انسان ہمت کرے اور پختہ ارادہ کر لے تو اللہ ضرور مدد کرنے والا ہے۔ کفار کے ممالک کی ظاہری زیب وزینت دھوکے میں نہ ڈالے ، یقینا شہد میں زہر ملا ہوا ہے ، اس سے بچ کررہیں ۔ ایک اہم ترین نکتہ جو انتہائی توجہ طلب ہے کہ اللہ کی بندگی ہر دور اور ہر جگہ میں ہو سکتی ہے، اس کے لیے کسی جگہ اور موسم کا تعین ضروری نہیں ، سوائے ان عبادات کے جن کے لیے خاص جگہ اورمخصوص زمانہ شریعت نے متعین کیے ہیں ۔ جیسے حج اور عمرہ کے لیے مکہ ، اور پھرحج کے لیے خاص جگہ اور دن۔ کسی بھی موسم میں مسجد نبوی اور مسجد حرام کی زیارت اس لیے کہ یہاں عبادت کا ثواب زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ خاص امیدِثواب کے ساتھ کسی بھی جگہ کا سفر کرنا جیسے: کسی درگاہ اور دربار کا سفر ، یا گناہ کے لیے سفر؛ مختلف غیر مسلموں کی رسوم اور مذہبی امور میں شرکت کے لیے جیسے : کرسمس عیسائیت کا تہوار ، ہندوؤں کی رسم بسنت وغیرہ ، یہ سب حرام اور ناجائز ہیں ۔ یہ حرمت اس وقت اور بھی سخت ہوجاتی ہے جب طویل ترسفر کے ساتھ مال کے ضیاع ، جان کی تکلیف اور ایمان و عقیدہ کو خطرہ لاحق ہو۔
[1] صحیح / الترغیب والترھیب۔ [2] الجامع الصغیر۔ [3] صحیح / الترغیب والترھیب۔