کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 202
پامالی ، اپنی جوابدہی سے عملی بیزاری ، حرام کاموں کے ارتکاب،اور دیگر ہزار رنگ کے جرائم اور گناہوں کا موسم بنالیتے ہیں ۔ یہ حالات کچھ ان لوگوں کے متعلق دیکھنے میں آتے ہیں جو ان ممالک کا سفر کرتے ہیں جہاں بے حیائی ،فحاشی، عریانی اور غلط کاری کلچر کے طور پراپنائی گئی ہیں اور عام ہیں ۔ اس پر کوئی روک ٹوک اور پابندی نہیں ۔ شراب سرِ عام ملتی ہی نہیں بلکہ پانی اور مشروب کا نعم البدل سمجھی جاتی ہے۔ زنا ، اغلام بازی اور دیگر جنسی بیماریاں اور برائیاں عام ہیں ۔ ایسی چیزوں کے دیکھنے سے انسان میں نہ صرف غیرت کم ہوجاتی ہے، بلکہ حیاء اور مروت جانے کے ساتھ ساتھ انسان خود بھی ان گناہوں میں پڑ جاتا ہے۔ اور ایسے بھی ہوتا ہے کہ انسان یہ سفر ایمان کی حالت میں کرتا ہے ، اور ایمان سے خالی ہاتھ ہو کر شکوک وشبہات کا ڈھیر لے کر واپس آتا ہے۔ کتنے ہی صالح لوگ خوشی خوشی ان تمام امور سے غافل ہوکر گھر سے نکلے ؛ ان کے دل میں شہوت وشرارت اور خواہشات وجذبات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، اور اس سفرسے واپسی کے بعد بد ترین فسادی بن گئے، راہ مستقیم پر چلنے والے کنارہ کش ہوگئے، اور نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے اب پیچھے رہنے لگے۔ جب انہیں اکیلے میں گناہ کا موقع میسر آئے ، تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس طرح ایمان اور اصلاح کی جو دولت برسوں سے محفوظ چلی آرہی تھی ، پل بھر میں گنوا دی۔ یہی وہ ہلاکت ہے جس میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے۔ اس سفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بدبختی ان کا مقدر کردی۔ کئی مصائب اور امتحانات میں مبتلا کردیا۔لادینیت اور فسق و فجور کے ان معاشروں میں عورتوں کا فتنہ کھلم کھلی ہلاکت ہے۔ اس لیے کہ وہاں خلوت اور اختلاط،اور مابعد کے دیگر امور کوئی معیوب چیز نہیں ۔ جب کہ دین ہمیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأْۃٍ إِلاَّ کَانَ الشَّیْطَانُ ثَالِثُہُمَا۔))[1]
[1] المستدرک للحاکم ؛ کتاب العلم ، ح: ۳۹۰۔ صحیح ابن حبان ، باب طاعۃ الأئمۃ ، ح: ۴۵۷۶۔ صحیح ، الترمذی: ۳؍۴۷۴۔