کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 201
دین اس کی غیبت میں چلا جاتاہے۔ اس انسان کا دین اور دنیا ان سے انتقام لینے اور ان کے بیکار اخلاق اپنانے میں چلی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی طرف بہت ہی کم اہل عقل کی توجہ ہوتی ہے ، چہ جائے کہ اہل غفلت تو اس جانب توجہ ہی نہیں دیتے۔ ‘‘[1] ۲۰۔ بے حیائی کے مراکز کاسفر : حدیث میں آتا ہے : (( اَلْسَّفَرُ قِطْعَۃٌ مِنَ الْعَذَابِ یَمْنَعُ أَحَدَکُمْ نَوْمَہٗ وَطَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ ، فَإِذَا قَضَی أَحَدُکُمْ نَہْمَتَہٗ فَلْیُعَجِّلْ إِلَی أَہْلِہٖ۔)) [2] ’’ سفر بھی عذاب کا ایک حصہ ہے ، جو تم میں سے کسی ایک کو سونے اور کھانے اور پینے سے روکتا ہے۔اور جب تم میں سے کوئی ایک اپنا کام پورا کردے تو جلدی اپنے گھر پلٹ جائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾(البقرہ:۱۹۵) ’’ اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ ہرانسان کے پاس اس دنیا کی زندگی میں دنیا بھر کی سب سے قیمتی چیز اور گنجِ گراں مایہ اس کا دین اور پھر عمر رواں کی چار گھڑیاں ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ انسان اس عمر پر روئے گا، اور گزرا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ انسانی سلامتی اور عافیت حرام کام سے دور ی میں ہے۔ ایسے ٹھکانوں کی طرف جانا ، ایسے شہروں وممالک ،اور بازاروں کی طرف جانا جہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب اوراس کا غضب نازل ہورہا ہو؛ خود کو رسوا کن ہلاکت سے دوچار کرنا ہے۔ خاص طور پر جب وہا ں کے رہنے والے اللہ کی نافرمانی پر مددگار بھی ہوں ۔ مگرصد افسوس کہ بعض لوگ ان لمحات کواللہ کی نافرمانی، ضیاع وقت ، حدود شریعت کی
[1] ایقاظ الہمم العالیۃ : ۱۰۵۔ [2] البخاری :باب السرعۃ في السیر، ۲۹۹۹؛ وکذلک برقم ۲۸۳۹۔ ومسلم ، باب : السفر قطعۃ من العذاب و استحباب تعجیل المسافر إلی أہلہ بعد قضاء شغلہ ، ح: ۵۰۷۰۔