کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 199
دوسری جگہ کی جائے، خواہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو۔یہ عمل اسلام کی بنیادی تعلیمات اور مصلحتوں کے خلاف ہے۔ اسلام لڑائی جھگڑے اور عداوتیں ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔ عبرت آموز واقعہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بقیع میں دو قبروں پر ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان قبر والوں کی آواز سنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انپر ہونے والا عذاب اور اس کا سبب ظاہر کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی خبر دی تا کہ وہ ان اسباب عذاب سے بچ سکیں ۔اوریہ بھی بیان کیا کہ یہ لوگ اس عذاب کا سبب اگر ترک کرنا چاہتے تو ان پر کوئی گراں نہ ہوتا۔ اور یہ گناہ اس عذاب کی وجہ سے بہت بڑے تھے۔ فرمایا: ((إِنَّہُمَا یُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِيْ کَبِیْرٍ، أَمَّا أَحَدُھُمَا فَکَانَ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَکَانَ یَمْشِيْ بِالنَّمِیْمَۃِ۔ ‘‘ فَأَخَذَ جَرِیْدَۃً رَطِبَۃً،فَشَقَّھَا نِصْفَیْنِ،فَغَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً، فَقَالُوا: ’’ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! لِمَا فَعَلْتَ ھَذَا؟ فَقَالَ :’’ لَعَلَّہٗ یُخَفِّفُ عَنْہُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا۔))[1] ’’ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے ،اوریہ عذاب کسی بڑی وجہ سے نہیں ہو رہا ، ایک کو عذاب اس وجہ سے ہورہا ہے کہ و ہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا لوگوں کے درمیان چغل کی بات لے کر چلتا تھا۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ٹہنی لی، اوراسے چیر کردو کردیا، اور ہر ایک قبر پر سر کی جانب ایک حصہ گاڑ دیا،صحابہ کرام نے سوال کیا : یارسول اللہ ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟آپ نے فرمایا :’’شاید کہ جب تک یہ نہ سوکھیں ان کا عذاب ہلکا ہو۔ ‘‘(متفق علیہ) لمحو ں نے خطا کی تھی، برسوں نے سزاپائی
[1] ابوداؤد؛ باب : في القتات ، ح: ۴۸۷۳:۴؍۲۶۸۔سنن الترمذي ، باب: النمام ، ح: ۲۰۲۶۔ الأدب المفرد ، باب النمام ، ح: ۳۲۲۔