کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 195
کر سوچتے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ اور ایسے کام کاج اور کاروبار کو بالکل ترک کردیتے جس کی وجہ سے ہمارا سال اورمال ضائع ہوگیا۔ مگر کبھی یہ بھی سوچا ہے اصل سرمایۂ حیات میں کتنی کمی آگئی ہے ؟ پورا سال کم ہوگیا ؛ اپنی موت سے اتنی مسافت پر قریب آگئے ،حساب کا وقت اور قریب تر ہوگیا؛ مگر ہمیں کبھی اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہ ملی ؛ اور یہ احساس زیاں ہمارے دلوں سے بالکل ختم ہی ہوچکا ہے۔ ایسے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سچ ثابت ہوتی ہے جس کا تذکرہ ابھی کچھ پہلے گزرچکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی ہاتھ در ہاتھ اور بالشت در بالشت پیروی کروگے …‘‘ آج ہم اپنی عملی زندگی میں اس چیز کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ دنیا دار لوگ اپنی دنیاوی وضع و قطع اورپروگراموں میں یہود و نصاری اور باقی امتوں کی راہ پر چل پڑے ہیں ، بلکہ کتنے ہی دین دار لوگ اور ان کی مذہبی جماعتیں نہ صرف سابقہ امتوں کی راہ پر چل رہے ہیں بلکہ اپنے مؤقف کو غلط سمجھ کر بھی محض مذہبی تعصب اور کٹ حجتی کے لیے اس کی خوب وکالت کرتے ہیں ۔ جس کا تمام تر بوجھ صرف ان کی ذات پر ہے ۔ ایسے پروگرام نہ صرف وقت کا ضیاع ہیں بلکہ اس میں ایمان کا بھی نقصان ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اہل مدینہ کے دو دن مقرر تھے ، جن میں وہ کھیلا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کون سے دو دن ہیں ؟ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جاہلیت کے دور میں ان میں کھیلا کرتے تھے (ان کی عید کے دن تھے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ أَبْدَلَکُمْ بِھِمَا خَیْراً مِّنْہُمَا ،یَوْمَ الأَضْحٰی وَیَوْمَ الْفِطَرِ)) [1]
[1] البخاری ؛ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لتتبعن سنن من کان قبلکم ؛ ح: ۶۸۸۸۔و مسلم فی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود والنصاری برقم: ۲۶۶۹۔