کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 194
حقیقت نہیں ، اورنہ ہی متقدمین میں سے کسی نے اس طرح کی کوئی عید مقرر کی ہے ۔ اس کا وقت ۲۵ دسمبر سے لے کر ۳۱ دسمبر تک ہے ، اسے کرسمس کہتے ہیں ، یعنی عید میلاد عیسیٰ علیہ السلام ۔ ج۔ مجوسیوں کی عید یں : عید نو روز اور عید مہرجان؛ عید نوروز اصل میں بکرمی سال کے پہلے دن ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ عیدیں مجوسیوں کے ہاں ہیں ۔ یہاں پر چند ایک مشہور مذہبی عیدیں ذکر کی جاتی ہیں ، تاکہ نوجوان ان کی حقیقت جان کر ان میں شرکت سے باز رہیں ۔ د۔ ہندو مت کے رسوم و رواج : جیسے بسنت ؛ اور جشن بہاراں ؛ ہولی ، دیوالی وغیرہ۔ ان پروگراموں کی کیا حقیقت ہے ، اس بات سے قطع نظر کہ اب حکومتیں بھی سنجیدگی سے بسنت پر پابندی لگانے یا اس کو کنٹرول کرنے پر غور کررہی ہیں ۔ اور اس بسنت کے موقع پر ہونے والی بے حیائی اور فحاشی اپنی جگہ ؛ مگر جن قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے ، اور جو معصوم لوگ مارے جاتے ہیں ، بچے یتیم ہوجاتے ہیں ، گودیں اجڑ جاتی ہیں ، اور سہاگنیں بیوہ بن جاتی ہیں ، یہ کسی بھی ادنی عقل رکھنے والے پر مخفی نہیں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کیا لوگ انہی کے پیچھے پڑے رہیں گے؛ یا ان میں عقل اور غیرت نام کی کوئی چیز بھی لوٹ کر آئے گی ، اور وہ اپنے مذہب کی پابندی کرتے ہوئے غیر مسلموں ؛ ہندؤوں کی رسومات کو خیرباد کہیں گے۔ جن میں نہ صرف قیمتی وقت بلکہ جان او رمال کا بھی بے دریغ ضیاع ہوتا ہے۔ اور اس طرح مذہبی غیرت اور حمیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے۔ ان کے علاوہ برتھ ڈے، ویلنٹائن ڈے(یوم محبت )، بسنت ، اپریل فول، ہیپی نیو ائیر (سال نو) ، اور دیگر پروگرام یا تو یہودیوں سے لیے گئے ہیں ، یا پھر ہندوؤں سے۔ برتھ ڈے (یوم میلاد ) منانے والے کیا اس بات کی خوشی مناتے ہیں کہ ان کے گناہوں میں ایک سال کے گناہ اور بوجھ بن گئے مگر نیکیاں صفر رہیں ۔ ضیاع کا تناسب بڑھتا رہا اور فائدہ زیرو سے نیچے ہوگیا۔ اگر اتنا نقصان ہمارا دنیا کے ظاہری سازو سامان میں ہوا ہوتا تو یقینا ہم دس بار بیٹھ