کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 191
آسکتا ہے۔ ۱۸۔کفار ومشرکین کی اتباع کے پروگرام : بندہ مؤمن صبح وشام اللہ عزوجل کے حضور دعا گو رہتا ہے : ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿٦﴾‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎﴿٧﴾ (الفاتحہ:۴۔۷) ’’یا اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے اپنا انعام کیا ، نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو گمراہ ہوئے۔ ‘‘ (آمین) لیکن کیا کہیں اسے ؛یہ اپنی سادگی ہے اورغیروں کی عیاری کہ زبان سے جومانگا،اور دل میں جس کی تمنا کی ، وہ ہماری زندگی میں عملی طور پر نہ آسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنوں اور غیروں کی راہ میں کوئی تمیز ہی نہ کی ، جس کی وجہ سے ہم نے ظاہری زینت کو اچھا جان کر قبول کر لیا ؛ حالانکہ چاہیے تویہ تھا کہ ہم دعاؤں کے ساتھ ساتھ عملاً بھی ان راہوں کو جاننے کی کوشش کرتے ، جو انعام یافتہ لوگوں کی راہیں ہیں تاکہ ہمارا شمار بھی ان کے متبعین میں سے ہو۔ اور ان لوگوں کی راہیں جانتے جن پر اللہ کا غضب ہوا ، اور جو لوگ گمراہ ہوئے ، تاکہ ان کی راہوں سے بچ کررہ سکیں ، اور اس طرح ایسے لوگوں سے مکمل برأت اور بیزاری کا اظہار ہو ، جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں ، اور ان کی بتائی ہوئی راہ پر نہیں چلتے۔ یہی مومنین کی وہ خاص صفت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے بطور خاص مومنین کی تعریف کی ہے۔ فرمایا: ﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ﴾(المجادلہ :۲۲) ’’آپ کسی بھی قوم کو ایسا نہیں پائیں گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان