کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 190
فَکَمْ مِنْ صَحِیْحٍ مَاتَ مِنْ غَیْرِعِلَّۃٍ وَکَمْ مِنْ عَلِیْلٍ عَاشَ حِیْناً مِنَ الدَّہْرٖ وَکَمْ مِنْ صَبِيٍ یُرْتَجٰی طُوْلَ عُمْرِہٖ وَقَدْ نُسِجَتْ أَکْفَانُہٗ وَھُوَ لَا یَدْرِيْ وَکَمْ مِنْ عُرُوْسٍ زَیَّنُوْھَا لِزَوْجِھَا وَقَدْ قُبِضَتْ رُوْحَاھُمَا لَیْلَۃَ الْقَدَرِ ’’ تقویٰ کا زاد راہ اختیار کیجیے۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ جب رات چھا جائے تو کیا صبح تک زندہ رہیں گے؟ کتنے ہی تندرست لوگ بغیر کسی بیماری کے مرگئے؛ اور کتنے ہی مریض ایک لمبے زمانہ تک زندہ رہے۔ اور کتنے ہی بچے جن سے لمبی عمر کی امید وابستہ ہے ، اور ان کے لیے کفن تیار ہوچکے ہیں ، اور وہ جانتے نہیں ۔ کتنی ہی دلہنیں ان کے شوہروں کے لیے سجائی گئی ہیں ، مگر لیلۃ القدر میں ان دونوں کی روحیں قبض ہونے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔‘‘ کتنی ہی بار سنتے اور اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ بارات کی گاڑی الٹ گئی اور دولہا دلہن دونوں ہلاک ہو گئے، بقول شاعر: جہاں بجتی ہیں شہنائیاں وہاں ماتم بھی ہوتا ہے ٭ شادی میں فائرنگ نے غلطی سے دولہا کی جان لے لی ، خبر سنتے ہوئی دلہن پر دل کا دورہ پڑا اور وہ بھی جانبر نہ ہوسکی۔ ایسی خبریں حقیقت میں غافل کے لیے بیداری کا سامان ، اور عقل مند کے لیے عبرت کا خزینہ ہیں ۔ نہ جانے کب او رکس حالت میں موت آجائے ، اور ہم اپنے اللہ کے ہاں کیا جواب دیں گے ؟ یقیناً یہ سب کچھ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان میں نقص کا نتیجہ ہے۔ اگر ایمان کامل ہوتو انسان ہر وقت اس تیاری اور بیداری میں رہے کہ کسی بھی وقت اسکے رب کا بلاوا