کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 19
سراب کے تعاقب میں چلنے کے مترادف ہی ہے ۔ ہمیں امراض و عوارض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ حل اور حلاج کے لیے عملی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کام شروع کرنا ہے ۔ ہزار میل کا سفر ایک قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے ۔ ہمارے عقائد میں انحراف واقع ہوا ہے ، جس کی وجہ سے اسلام سے ہماری نسبت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ ہمیں غیروں کی تقلید محبوب ہوچکی ہے ۔ جس نے اقوام و امم میں ہمارے امتیازی تشخص کو بری طرح متاثر بلکہ مسخ کرکے رکھ دیاہے۔ ہمارا منہج حیات بدل چکا ہے۔ترجیحات بدل چکی ہیں ۔جس کی وجہ سے ہدایت کی جگہ ضلالت ، عبادات کی جگہ بدعات ، اور اخلاقیات کی جگہ جاہلانہ عادات اور اعلی اقدار کے حامل طرز معاملات کی جگہ فرسودہ روایات نے لے رکھی ہے۔ امیدوں کی شمع بجھ نہیں گئی ؛ ٹمٹما رہی ہے ؛ اس لیے اسے روشن سے روشن تر کرنے کے لیے یقین محکم اور عمل پیہم کی ضرورت ہے ۔ لیکن کیا یہ سب کچھ وقت کی قدر و اہمیت کے عمیق ادراک کے بغیر ممکن ہے؟۔ وقت بڑی سرعت ِرفتار کے ساتھ کسی طرف کوئی التفات کئے بغیر اپنی منزل طے کرنے میں محو و مستمر ہے ۔ بندہ وقت کے انتظار کا پابند ہے ۔ اور یہ انتظار اس کی فطری مجبوری ہے ۔ لیکن وقت کسی کا منتظر نہیں ہوا کرتا ۔ کیونکہ یہ اس کی فطرت سے میل نہیں کھاتا ۔ قرآن کریم کی عظیم سورت ’’ سورۃ العصر ‘‘ کا فکر و تدبر کے ساتھ جب مطالعہ کرتے ہیں تو کئی حقائق سامنے آتے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالْعَصْرِ ‎﴿١﴾‏ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ‎﴿٢﴾‏ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ‎﴿٣﴾ (العصر) ’’زمانے کی قسم۔بے شک انسان سراسر خسارے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اورایک دوسر ے کوحق پر چلنے کی نصیحت