کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 187
آنکھیں اور دل ان سب سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ‘‘ یہ بات ذہن میں رہے کہ کوئی بھی چیز اپنے اندر اچھائی او ربرائی کے دونوں پہلو رکھتی ہے ، مگرافسوس کہ ہم لوگ اس کا برائی میں استعمال زیادہ کرتے ہیں ، میرا مذکورہ بالا مؤقف اسی چیزکی ترجمانی کرتا ہے۔اگر بات صرف خبریں سننے ، حالات سے آگاہی حاصل کرنے ، یا مثبت پروگرام دیکھنے ، یا کبھی کبھار تفریح طبع کے لیے کوئی مزاحیہ پروگرام وغیرہ دیکھنے تک ہو، یا مذہبی یا سائنسی پروگرام ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،مگر جب بات وہاں سے نکل کر ڈش ، اور کیبل تک پہنچتی ہے تو پھر انجام سے کوئی انسان غافل نہیں ۔ دراوی۔ ۱۶۔ ویڈیو کی تباہ کاریاں : مغرب جس کی تقلید میں ہم اس منزل پر پہنچ آئے ہیں ، آج وہ معاشرہ دم توڑ رہا ہے ۔ اس کی آخری سسکیاں جاری ہیں ۔وہ اپنی جان بچانے کے لیے کسی تنکے کا سہارا تلاش کررہا ہے؛ مگر اسے کہیں راہ ِ نجات نظر نہیں آتی۔ وہاں کا خاندانی نظام بہت بری طرح تباہ ہوچکا ہے ۔ جرائم میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ فتنے بڑھ رہے ہیں ۔اسی حیاء باختگی اور بے راہ ِ روی کی وجہ سے نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔ ان میں سے اکثر بیماریاں ایسی ہیں کہ ہم سے پہلے لوگ ان کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ مغرب میں جہاں سے یہ خباثتیں اور گندگی پھیلائی جاتی ہے ، وہاں اس کے نتائج اور اثرات پر بھی گہری نظر رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،یہ ایک لمبی تفصیل ہے۔ مختصراً ایک ایسی ہی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے اعداد وشمار پیش خدمت ہیں : ٭ اسپین میں ۳۹ فیصد جنسی انحرافات اور جرائم کے اسباب ایسی فلموں اور سیریز کا دیکھنا تھا۔ ٭ ۸۵ فیصد عورتیں گندی فلمیں دیکھنے کی وجہ سے اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہیں ۔ ٭ ۵۳ فیصد دینی امور واجبات وفرائض کی ادائیگی میں سستی کا سبب ان فلموں کا مشاہدہ ہے۔ ٭ ۳۲ فیصد فیصد ترک تعلیم کے واقعات میں دخل اسی امر کا ہے۔