کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 185
اس مشاہدہ اور تجربہ کے بعد انہوں نے ہمارے لیے وہی امور تجویز کیے جن سے وہ خود پستی کا شکار ہوئے تھے۔ اور بہت بڑے افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت جلد ان کی خواہشات پر لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کا ساتھ دیا ، بلکہ اپنوں میں سے اگر کسی خیر خواہ نے سمجھانے اور اس راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو اس پرطعنے اور الزامات عائد کیے گئے۔ اور اس طرح انہوں نے اپنوں سے دشمنی کرکے دشمن کی ناپاک پلاننگ کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر ہم قسم کھا کر کہیں تو حق بجانب ہوں گے کہ ان تمام امور کا پس پردہ محرک ومقصد مسلمانوں کو اخلاقی اور دینی پستی سے دوچار کرنا ہے۔ ایک وقت تھاکہ دو بھائی آپس میں نامناسبکلام کرنے کو بے حیائی ،فحاشی اور بے غیرتی سے تعبیر کرتے تھے ، اور آج سب مل کر یہ حیا سوز اور غیرت شکن پروگرام اجتماعی طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ اگر چہ ہم نے انگریزی استعمار سے ظاہری طور پر آزادی حاصل کر لی ہے، لیکن اب بھی انگریز اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہمارے ہر گھر ،گلی اور قصبہ میں ڈش، کیبل، اور ٹی وی کی صورت میں موجود ہے۔ اور ابھی تک ہم انگریز کی غلامی سے فکری طور پر آزاد نہیں ہوسکے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کی غلامی اس سے بہتر تھی کہ ہم ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، اور ان کے رسم ورواج طور طریقوں بلکہ ہر چیز سے نفرت اور ان سے آزادی حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔مگر اب اس نئی غلامی نے یہ احساس وشعور نہ صرف ختم کردیا، بلکہ الٹا ہمیں آپس میں لڑا کر ہمارے نوجوانوں کو اس سے محبت کرنے، اور اس سے لذت حاصل کرنے پر لگادیا۔ اس طرح جو دشمن کبھی بھی ہم تک پہنچنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا ، ہم نے اسے اپنے مال اور عزت کے بدلہ میں خود ہی اپنے گھر میں لاکر بٹھا دیا۔ یہ مستقبل میں ایک بہت بڑی تباہی کا پیشگی خطرہ ہے ، جس میں عورتوں ، مردوں ، بچوں اور بچیوں ہر ایک کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اور اب حالت یہ ہے کہ :