کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 184
اور گناہ کے مناظر امت میں بگاڑ کا اہم اور بڑا وسیلہ ہیں ؛ جسے جدت، اور ترقی پسندی کے نام پرہم لوگ اپنارہے ہیں ۔ اور منع کرنے یا سمجھانے یا اصلاح کرنے پر تنگ نظر، فرسودہ خیال، اور بیک ورڈ (پس ماندہ) ہونے کا طعنہ دے کر کہتے ہیں دنیا چاندپر پہنچ گئی ہے ، اور یہ مُلاّ ابھی ہمیں ان باتوں سے منع کررہا ہے۔ الحمد للہ ! مُلاّکا منع کرنا دینی نقطہ نظر سے بالکل درست ہے؛ اور حالات و واقعات بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں ۔ رہا یہ کہنا کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے تو پہنچے والے پہنچے، واپس آکر جہنم میں بھی چلے گئے۔مگر ایسا کہہ کر دین کا مذاق کرنے والے لوگ چاند پران کے ساتھ تو نہ جا سکے ، البتہ دین کے متعلق حقارت کے اس تصور ؛ اورنفرت پھیلانے سے ایمان سے محروم ہو گئے۔ اور باقی رہ جانے والوں نے صدق دل سے توبہ نہ کی تویقیناً ان کے سا تھ جہنم میں اکٹھے ہوجائیں گے۔ اور مولوی جانتا ہے کہ : سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں حقیقت میں ان چیزوں کے ہمارے علاقوں میں اس قدر فراوانی اور سستا ہونے کے پس پردہ محرکات بھی یہی ہیں ، کہ کس طرح ان چیزوں کو رواج دے کر معاشرہ میں ان کی جڑیں مضبوط کی جائیں ۔ تاکہ ہم اپنی دینی حمیت و غیرت پر خود ہی اپنے ہاتھوں سے کلہاڑا چلا کر اس کا قتل عام کرسکیں ۔ کیونکہ اہل یورپ نے اپنے معاشرہ میں جب ان چیزوں کے نقصانات کا عملی طور پر مشاہدہ کیا تو انہوں نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ان کو بطور خفیہ وار کے استعمال کیا تاکہ مسلمانوں پر غالب آسکیں ۔ جرمن ڈاکٹر ہائینز سلنگر لکھتا ہے: ’’ بے شک جب سے ہم دین سے دور ہوئے ہیں اخلاقی گراوٹ اور پستی ہماری رگ وپے میں رچ بس گئی ہے ، اور یورپ اس وقت سے مسلسل اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ ‘‘