کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 180
کرنا ہے۔ ایسے ہی بعض دوسرے رسم و رواج جو ہمارے گھٹی میں پڑ چکے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔ایسے ہی اسباب کے بعد اللہ تعالیٰ کا عذاب دینے کا وعدہ سچ ثابت ہوتا ہے ، اور عذاب آکر رہتاہے۔ مگر اس کو ثقافت، تہذیب اور تفریح ودل لگی کے نام پر بڑے آرام وسکون سے قبول کیا جارہا ہے ؛ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ تعجب ہے اس آدمی پر جو آگ دیکھ کر اس میں قدم رکھ رہا ہو؛ جو فتنہ دیکھ کر اس میں چھلانگ لگا رہا ہو۔ اس افسوسناک صورتحال سے عمریں اورگھر بار تباہ ہوگئے ، معاشرتی اور سماجی اخلاق کو پامال کردیا گیا ؛ مگر اس بات کا شعور اور احساس نہیں ہورہا کہ تباہی کا منبع کہاں پر ہے ، اور اس کا حتمی انجام کیا ہوگا ؟ ہر گھر میں ٹی وی اور ڈش ایک خطرناک مرض اور فحاشی کے اڈے کی صورت میں قدم جما چکا ہے۔ اب بات اس سے آگے بڑھ گئی ہے ، جو لوگ ڈش نہیں خریدسکتے ، وہ کیبل کی صورت میں یہ رستا ہوا ناسور اپنے اہل خانہ ، بچوں اور بچیوں کو بصد خوشی بطور تحفہ دے رہے ہیں ۔ گویا کہ و ہ شخص اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کو ’’سلو پائزن ‘‘ دے رہا ہے ؛جس کانام پائزن نہیں ، بلکہ ڈش اور کیبل ہے۔ جس طرح زہر سے جسم گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی کیبل اور ڈش سے اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور اسلامی اقدار کا جنازہ اس گھر سے نکل جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا بھی تباہ اور آخرت بھی خراب؛ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ایک عربی شاعر کیا خوب کہتا ہے : خَلَتِ الْقُلُوْبُ مِنَ الْمِعَادِ وِذِکْرِہٖ وَتَشَاغَلُوْا بِالْحِرْصِ وَاْلإِطْمَاعِ صَارَتْ مَجَالِسُ مَنْ وَتَرٰی حَدِیْثُہُمْ فِيْ الصُّحُفِ وَالْتِلْفَازِ وَالْمِذْیَاعِ