کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 179
’’ اور اللہ تعالیٰ ہر گزکسی نفس کومہلت نہیں دیتے ؛جب اس کا مقررہ وقت آجاتا ہے ، اوراللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ ۱۲۔ منصوبہ سازی کا فقدان: عملی زندگی میں حقیقی اور معنی خیز کامیابی منصوبہ بندی اور پلاننگ کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ منصوبہ جتنا بہتر ہوگا ، اور اس کے لیے جدو جہد بھی اسی حساب سے ہوگی اور پھر کامیابی کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے ۔ بعض اوقات انسان بغیر کسی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے مہمل طور پرکوئی کام یا منصوبہ شروع کردیتا ہے۔ تو ا س صورت میں افراط وتفریط کی وجہ سے وقت ضائع کردیتا ہے۔[1] ۱۳۔ عادات و تقالید : ہمیں اپنی عادات کا بھی جائزہ لینا ہوگا ، اور معاشرہ کے رسم و رواج کابھی ۔ ان میں بہت سارے امور ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے ہم اپنے نفس کو بلاوجہ تکلیف میں ڈالتے ہیں ، حالانکہ نہ ہی ان کی کوئی خاص ضرورت ہوتی ہے اورنہ ہی اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ہے ۔ مثال کے طور پر نماز فجر کے بعد سونے کی عادت ۔ یا نماز کو ایسے وقت میں پڑھنا جب اس کا وقت بالکل نکل چکا ہو؛ نماز عشاء کے بعد قصہ خوانی کی مجلس۔ آنے جانے و الوں کے ساتھ خواہ مخواہ کی طویل گپ شپ ۔ حالانکہ اس کا ایک بڑا خسارہ یہ ہے کہ جب انسان بہت زیادہ کلام کرتا ہے ، تو اس سے غلطیاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں ۔ اہل عرب کہتے ہیں : (( مَنْ کثُرَ کلامُہٗ کَثُرَ غَلَطُہٗ۔)) ’’ جس کی باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں ، اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں ۔‘‘ ایسے ہی بلاوجہ کالیں کرتے رہنا ، اس میں اپنے وقت کا بھی ضیاع ہے اور دوسروں کے وقت کا بھی ۔ ایسے ہی اب کے دورمیں موبائل کی وجہ سے ایک نئی مصیبت پیغام رسانی کی ہے۔ ان دونوں کاموں میں وقت مال اور ذہن کی تباہی کے ساتھ اپنے برے اعمال کو زیادہ
[1] آفات علی الطریق از سید محمد نوح ۳/ ۱۰۵ -۱۱۰۔