کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 177
بے انصاف ) بڑا ناشکر ا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیجیے ، انہیں جاننے کے لیے بھر پور کوشش کریں ،اوراپنی صلاحیات کا ادراک کیجیے وقت اور مال بچائیے۔ ۸۔ نگرانی اوراحتساب کا فقدان: بیشتر اوقات انسان کسی کام کو شروع تو کردیتا ہے مگر وقتاً فوقتاً اس کاپیچھا نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا م کی بابت اپنا محاسبہ کرتا ہے کہ آخر یہ کام کس نہج پر ہورہا ہے ، اور اس کا شروع سے لے کر اب تک نتیجہ کیا رہا ؟ اس صورت میں بھی وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ کیونکہ یا تو انسان بیکار اور ثانوی درجہ کے کاموں میں مشغول رہتا ہے ، یا کسی ایسے کام میں جو سراسر نقصان دہ ہی ہوتا ہے۔اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھیں : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ﴾(الحشر:۱۸) ’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اور چاہیے کہ ہر جی دیکھے اس نے کل کے لیے کیابھیجا ہے۔ ‘‘ تو اسے صرف آخرت کے امور کے لیے ہی قیاس نہیں کیاجاسکتا ، بلکہ اس آیت کے پیش نظر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دنیاوی معاملات میں بھی ان کی جانچ پرکھ اور احتساب و نگہبانی کرتا رہے تاکہ اسے آنے والے کل کسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ ۹۔ گناہ اور عدم تزکیہ نفس: انسان سے صادر ہونے والے گناہ خصوصاً صغیرہ گناہوں میں انسا ن پڑا ہواہوتا ہے ، مگر وہ ان سے توبہ کرکے تزکیہ نفس نہیں کرتا جس کے نتیجہ میں وقت کی برکت اور اعلی صلاحیت سلب کرلی جاتی ہے۔ کیونکہ نیکی اور توبہ سے وقت میں برکت اور صلاحیت میں اضافہ ہوتاہے۔ نیک کاموں میں کامیابی کے لیے تزکیہ نفس بہت ضروری ہے۔