کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 176
وقت کا ضیاع ہے ؛ بلکہ توانائی کے ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ ناکامی پر ندامت اور حسرت و افسوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ ،وَمَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ ، وَمَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔)) [1] ’’ جس نے استخارہ کیا وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا ؛ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہیں اٹھانا پڑتی، اور میانہ رو کبھی فقرمیں مبتلا نہیں ہوتا۔ ‘‘ ۷۔ اپنی صلاحیت سے بے خبری: اکثر اوقات انسان کو اپنی طاقت ، محنت اور صلاحیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ تو اس کے نتیجہ میں وہ کبھی خود پر بلا وجہ اعتماد کرکے کوئی ایسا کام شروع کردیتا ہے ، جس کے متعلق اسے کوئی علم نہیں ہوتا ، وہ اسے انجام تک نہیں پہنچا سکتا ،بلکہ اس کا آدھا، تیسرا یا چوتھا حصہ بھی نہیں کرپاتا؛ اور نتیجہ آخر کا ر ضیاع وقت ہے۔ کہاوت ہے کہ : ’’ جس نے کسی کام کو پورا نہیں کیا گویا کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ ‘‘ اور بسا اوقات انسان کے اندر صلاحیت تو ہوتی ہے مگر ایک انجانے خوف کی وجہ سے و ہ اپنی صلاحیت کا صحیح اندازہ اور استعمال نہیں کرسکتا۔ اور وہ لوگوں پر اس کام کے بارے میں اعتماد کرکے اپنی صلاحیتوں کے ادراک سے محروم رہتا ہے ، اس طرح بھی وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر اس نعمت سے نوازا ہوا ہے جس کے ہم طلب گار ہیں ، فرمایا : ﴿وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ‎﴿٣٤﴾ (ابراہیم: ۳۴) ’’اورجوتم نے اس (اللہ ) سے مانگا وہ سب اس نے تم کو دیا اوراگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنو تو پورا گن نہ سکو گے بے شک آدمی بڑاے بے ظالم(یا بڑا
[1] معجم الکبیر۲/۱۷۵؛ ح: ۹۸۰۔