کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 175
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی بابت بہت سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ، صحت اور فراغت۔ ‘‘ ۵۔ خود کو اللہ کی پکڑ سے بالا تر سمجھنا : حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے فراغت وقت؛ صحت اور جوانی کی صورت میں انسان پر بہت سارے احسانات کیے ہیں ۔ انسان ان نعمتوں میں ایسا مگن اور مست ہوتاہے کہ اسے اس بات کا خیال ہی نہیں رہتا کہ ان نعمتوں کو چند ہی لمحات میں زوال بھی آسکتا ہے۔ اور اس طرح و ہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ تصور کرتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ ان نعمتوں کی صحیح قدر نہیں کرتابلکہ انہیں ضائع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ ‎﴿٦٥﴾ (الانعام: ۶۵) ’’(اے پیغمبر) فرما دیجیے اسی کو یہ قدرت ہے کہ اوپر سے تم پر عذاب بھیجے یا تمھارے پائوں کے تلے سے یا تم میں (پھوٹ ڈال کر) کئی گروہ کر دے اور ایک دوسرے کو لڑائی کا مزہ چکھائے (آپس میں ایک دوسرے سے لڑیں ) دیکھ ہم کس طرح پھیر پھیر کر آیتوں کو بیان کرتے رہیں تاکہ وہ سمجھیں ۔‘‘ ۶۔ انفرادی رائے اورعدمِ مشورہ: ایک شخص بیشتر اوقات کوئی انسان اپنی فرصت اور دل لگی کے اعتبار سے؛ یا پھر کسی عام ضرورت کے تحت ، یا ناموری کمانے کے لیے کسی کام میں لگ جاتا ہے ،لیکن وہ اس کام میں مہارت یا پورا پورا نہ رکھتے ہوئے بھی اس کے متعلق کسی سے مشورہ نہیں کرتا اور نہ کسی تجربہ کار کے تجربہ سے فائدہ حاصل کرتا ہے؛ اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنے ساتھ اس کام میں شریک بنانا چاہتا ہے۔ تواس کالازمی نتیجہ نہ صرف ثانوی درجہ کے کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے