کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 170
باوجود عند اللہ خائن ہے ۔ اور اس خیانت کا تدارک اگر اس نے اس دنیا میں نہ کیا تو اگلے جہاں میں اس کا حساب ضرور دینا پڑے گا۔ ہم اپنی زندگی کی جو گھڑیاں چوبیس گھنٹے یومیہ کے حساب سے گزار رہے ہیں ؛ اس میں ہم بے منزل مسافر کی طرح چلے جارہے ہیں ۔ جہاں تماشہ ہائے زندگی میں شراکت کرتے ہوئے وقت کی قدرو قیمت کا احساس کیے بغیر چلے جاتے ہیں ۔ ہمیں اس امانت کے سود و زیاں کا قطعی کوئی شعور نہیں ۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے اور اپنی چار روزہ حیات ِ مستعار کو کار گر بنانے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ، اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کوئی جامہ منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔اور ہمیں ان امور کا تدارک کرنا ہوگا جن کی وجہ سے ہمارا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے ۔ بد نظمی ٔوقت کے اسباب: ہم اپنا وقت کہاں اور کیسے ضائع کررہے ہیں ، اس سلسلہ میں ہمیں اپنی ذات اور اپنے افعال و کردار اور معاشرہ کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی عبادت کو کتنا وقت دے رہے ہیں ، اور حصول معیشت (کسب ِ رزق) کے لیے کتنا وقت لگا رہے ہیں ، کتنا وقت اصلاح و تعمیر معاشرہ اور اجتماعی ترقی کے لیے لگارہے ہیں ،جو کہ ہماری اہم ترین ذمہ داری بنتی ہے؛ اور کتنا وقت محض سیاست ؛ شخصیت پرستی اور دوسرے منفی امور پر لگارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ بھی جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہمارے اہل ِ خانہ کے ساتھ ہمارا کردار تعمیری اور اصلاحی ہے؛ اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی رو سے عائد ہونے والی ذمہ داریاں ہم نبھارہے ہیں یا پھران میں کوتاہی کرکے کسی بڑے جرم کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہماری ذمہ داری فقط گھر کے اخراجات پورے کرنا ہے ، اور بچوں کو انگریزی تعلیم دلانا ہے تاکہ وہ مستقبل میں کسی اعلی عہدہ پر فائز ہوکر زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں ، اس طرح خود بھی صرف پیسہ کمانے والی مشین بن کر رہ گئے ہیں ، اور اپنی آنے والی