کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 167
مسائل پر غور وفکر کرنے سے غفلت میں ڈالا جائے گا جن میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے۔ بس جب کوئی قوم اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی اور وقت کی نعمت کے احساس سے غافل ہوگی ، پھر ہم اور وہ یک زبان ہوکر ایک ہی مقام پر کھڑے ہوں گے۔ اور پھر اس صورت میں ہم عالمی معاشرے کے اکیلے ممبر ہوں گے جن کے ہاتھ میں نئے مستقبل کی سوچ بچاراور عنان ِ فکر ہوگی۔‘‘[1] تلخ حقیقت : کیا ہم نے اپنے دشمنوں کی منصوبہ بندی سے کوئی سبق حاصل کیا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ایک درد دل رکھنے والے مسلمان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ مگراس کا جواب نفی میں ہے۔ بلکہ ہماری حکومتیں ، ذمہ دار ادارے اور جواب دہ افراد الٹا اس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لیے جانے انجانے میں ہر وہ کام کررہے ہیں جس کا یہودی لابی ہم سے مطالبہ کرتی ہے۔ اس کا ایک زندہ ثبوت ہمارے مواصلاتی ، نشریاتی اور اعلامی اداروں کے ذریعے نشر کئے جانے والے اشتہارات ، اور ہمارے معاشرہ میں موجود غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز کا بکثرت) وجود ہے۔ یہ این جی اوز کیا گل کھلا رہی ہیں ؟ ایسے انکشافات آئے دن اخبارات میں ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر کسی اعلیٰ عہدیدار کے کان پر امت کے مستقبل کی اس تباہی پر جوں تک نہیں رینگتی ، کیونکہ انہیں امت سے زیادہ اپنے منصب اور کرسیاں عزیز ہیں ۔ بقول اقبال: وہ شکست خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ ورسمِ شہبازی امت کے نوجوانوں کاخود اپنے نفس کے ساتھ کیا سلوک ہے؟ ان کے شب و روز کا اکثر حصہ کن امور میں گزرتا ہے ، اس کا جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں سمجھ ؛عقل و ادراک؛بصیرت اور محاسبۂ نفس کی نعمتوں سے نوازدیں تاکہ ہم اپنے وقت کو اپنی منشا کے مطابق اللہ کی رضامندی اور
[1] دیکھئے : پروٹوکول نمبر۱۳، صفحہ ۱۵۱، بحوالہ’’ الوقت عمار أودمار‘‘