کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 165
فصل اوّل: غفلت کیوں کر ؟ یہ بات تو ہمارے اقوال اور افعال سے پوری طرح ظاہر ہے کہ ہم نے وقت کی قدرو قیمت کو ایسے نہیں پہچانا جیسے اس کا حق تھا۔ اس کا اظہار اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب ہماری دولت یا معمولی سا روپیہ پیسہ ضائع ہوتا ہے ، تو ہم اس پر بڑے افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور ہم نہ صرف اپنی دولت کا بلکہ لوگوں کی دولت کا بھی احترام کرتے ہیں ۔ اور اس کی حفاظت کا خیال رکھتے ہیں ۔ مگر جب ہمارا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہو؛ یا ہم وہ قیمتی وقت ضائع کررہے ہوں جس کا صلہ اور معاوضہ ہم نے کسی سے وصول کر لیا ہے؛تو ہمیں اس بات کاکوئی احساس نہیں ہوتا کہ کتنے ہی بیش قیمت گھنٹے ؛ دن ؛ مہینے اور سال ہم ایسی غفلت میں ضائع کردیتے ہیں جس کا تدارک شاید آنے والے لمحات زندگی میں نا ممکن ہو ۔حتی کہ وہ دیانتدار اور امین لوگ جو کسی دوسرے کا کھوٹی کوڑی کا نقصان بھی گوارہ نہیں کرتے ، مگر وقت کے ضیاع کے بارے میں وہ بھی عقل سے کورے ثابت ہوتے ہیں ۔ کسی نے بہت خوب کہاہے : غفلت میں گزر گئی جوانی افسوس کچھ قدر شباب کی نہ جانی افسوس وہ ولولے اب خزانِ پیری میں کہاں افسوس اے بہار زندگی افسوس ہم خواہ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں ، لیکن ایک پختہ حقیقت اور ٹھوس سچائی یہ ہے کہ موجودہ دور میں نوجوانوں کے اوقات کو ضائع کرنے میں ساٹھ فیصد حصہ عالمی یہودی اور