کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 164
کیا ہوتی ہے ، سو یہ خیال خالی دل سے ٹکرایا اور اس نے جگہ پالی۔‘‘[1] یہ مشاہدہ ہے کہ فارغ اوقات میں خیالات کا ہجوم اور شیطانی حملے انسان کو برا ہی سوچنے پر لگاتے ہیں ۔ الا یہ کہ عاقل اور صاحب بصیرت انسان ان افکار اور خیالات سے بچنے کے لیے کوئی متبادل راہ اختیار کرے جس میں اس کے لیے بھلائی اور امان ہو۔ کسی بھی بڑے آدمی کو آپ دیکھ لیں ، اسے وقت کا پابند ، اور قدر شناس پائیں گے۔ ہم خود یہ دیکھتے اور سمجھتے ہیں جولوگ جتنے بڑے منصب اور مقام پر ہیں ، ان کے لیے ان کایہ وقت اتنا ہی قیمتی ہے۔ بس ان کے اور ہمارے وقت کے درمیان اتنا ہی فرق ہے ، انہوں نے اس کی قدر کو جانا ، اور اپنی عملی زندگی میں نافذ کیا ، ان کا وقت قیمتی ہوگیا۔ اور ہم نے کتاب کو بطور قصہ اور کہانی کے پڑھ کر وقت کی قیمت کا اعتراف کیا ، لیکن اس کو پانے کی کوشش نہ کی، وہیں کے وہیں رہ گئے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے : ((اَلْحِکْمَۃُ ضَالَۃُ الْمَؤْمِنِ)) [2] ’’ دانائی کی بات مومن کا گمشدہ اثاثہ ہے۔ ‘‘ وہ اسے جہاں پائے وہ سب سے زیادہ اس کا حق دار ہے۔ یورپ اس حکیمانہ کلام نبوت کو سمجھ کر عمل کرکے ہم پر سبقت لے گیا، مگر ہم مومن ہیں کہ ہم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا ؛ اور ان تعلیمات کو ہم نے پس ِ پشت ڈال دیا؛ اثاثہ چھین کر سب لے گئی فصلِ خزاں اپنا وہاں کچھ زرد پتے ہیں جہاں تھا آشیاں میرا ****
[1] روضۃ المحبین ونزہۃ المشتاقین ،ص ۱۳۷۔ [2] ترمذی اور ابن ماجہ ، ضعیف۔