کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 160
’’ ہم عنقریب ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے جنہوں نے کفر کیا۔‘‘ اسی دلی بے چینی ، پریشانی اور گھٹن کے سبب کئی ایک لوگ خود اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔آئے روز پیش آنے والی خود کشی و خود سوزی کے واقعات ان ہی گناہوں کا نتیجہ ہیں ۔ ۳: معاشی و معاشرتی پریشانیاں : گناہوں کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مار یہ پڑتی ہے کہ انسان کی زندگی اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے۔ اس کے پاس مال و دولت ہونے کے باوجود بھی اسے ضروریات زندگی پوری طرح میسر نہیں آتی ؛ اور نہ ہی وہ اپنے مال و دولت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ بلکہ اس کا وہی مال اس کے لیے پریشانیوں اورمصائب کا سبب بن جاتا ہے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا ‎﴿١٢٤﴾ (طٰہ: ۱۲۴) ’’اور جوکوئی میری یاد سے رو گردانی کرے گا پس بے شک اس کے لیے زندگی بہت تنگ کردی جائے گی۔‘‘ یہ آیت اپنے اندر بہت وسیع معانی رکھتی ہے ، جہاں یہ آیت اس دنیا کی زندگی میں معاشی و معاشرتی پریشانیوں کی خبر دے رہی ہیں وہیں پر اس سے قبر میں ہونے والے عذاب پر بھی استدلال کیا جاتا ہے ۔ یہ سب گناہوں کی وجہ سے ہے ۔ ۴: دل کی سختی : جب انسان گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے ، تو اس کے دل سے بصیرت چھین لی جاتی ہے ، اور اس میں سختی ڈال دی جاتی ہے جس کی وجہ سے گناہوں کی قباحت انسان کی نظر میں نہیں سماتی ؛ اور نہ ہی اسے گناہ کرتے وقت خوف خدا یا شرم و حیاء کا احساس ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قَاسِیَۃً ﴾ (المائدہ: ۱۳) ’’ اور ہم نے ان کے دلوں کو بہت سخت کردیا۔‘‘