کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 158
﴿ لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ ‎﴿٢٥﴾ (النحل:۲۵) ’’تاکہ وہ اپنے گناہوں کا پورا پورا بوجھ اٹھائیں ، اور ان لوگوں کے گناہوں کابوجھ جن کو انہوں نے بغیرکسی علم کے گمراہ کیا، آگاہ ہوجاؤ ! بہت ہی برا بوجھ ہے جو وہ اٹھاتے ہیں ۔ ‘‘ وہ انسان خوش نصیب ہے جو مر کر بھی زندہ رہے اور بد نصیب ہے وہ انسان جو زندہ رہ کر بھی مردہ کی طرح ہو ۔ انسان کے لیے مرکر زندہ رہنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ ایسے اعمال صالح (نیک کام ) کرے جن کی وجہ سے لوگ اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتے رہیں ۔کیونکہ اللہ کی خلقت اس انسان کے اعمال کی گواہ ہے ۔ اوران کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اس انسان کے مرنے کے بعد اس کے نامہ اعمال میں شمار ہوتے رہتے ہیں ۔ ہر انسان کے پاس فکر کی چند گھڑیاں بہت قیمتی ہیں جن میں وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرسکتا ہے ۔ اور اس محاسبہ کی وجہ سے اس کی زندگی میں انقلاب آسکتا ہے ۔ نہ صرف فرد واحد کی حیات چارروزہ میں انقلاب بلکہ اجتماعی معاشرتی زندگی میں بیداری اورانقلاب بھی ان لمحات تفکر و تدبر کی بدولت ممکن ہے ۔ بقول شاعر : نوجوانوں اب تمہارے ہاتھوں میں تقدیر عالم ہے تقدیر کی اس زنجیر کو کمال حکمت سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس میں چند لمحات کی تاخیر بھی نتائج پر غلط اثر ڈال سکتی ہے ۔ گناہ کے بد اثرات: وقت کی قیمت و اہمیت انسان کی زندگی میں اس پہلو کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ چند لمحات جنہیں ہم اللہ کی فرمانبرداری میں لگاتے ہیں وہ ہمارے لیے نجات و کامیابی کا سامان ہوجاتے ہیں ۔ اس کے برعکس وہ گھڑیاں جو اللہ کی نافرمانی میں لگ جاتی ہیں وہ دنیا