کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 154
مگر پھر بھی وہ ان ہولناک مناظر سے نجات حاصل کرنے کے لیے تیاری نہیں کرتا ؛ اور ان سب سے لاپروا ہے۔ صد افسوس ہے اس انسان پر! جو دنیا کے مکانوں میں دفاع مدنی( فائر برگیڈ) کی ہدایت پر آگ بجھانے کے تمام تر انتظامات کرتا ہے؛ مگر وہ آگ جہاں فائر برگیڈ بھی کام نہیں آئے گا، اور کوئی دوست یا رشتہ دار بھی اسے بجھانے میں مدد نہیں کرے گا، اور نہ وہ آگ بجھے گی۔ اس آگ کے ہونے پر یقین بھی رکھتا ہے ؛ مگر پھر بھی دنیا کی اس مختصر سی زندگی میں اس آگ کو بجھانے کے انتظامات نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّٰهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ‎﴿٢٢﴾ (العنکبوت: ۲۲) ’’ اور تمہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوست اور مددگار کام نہیں آئے گا۔ ‘‘ شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے : امید نہیں جینے کی یہاں صبح سے تاشام ہستی کو نہ سمجھو کہ ہے خورشید لب بام یہاں کام کرو ایسا جو آئے وہاں کام آجائے خدا جانے کب موت کا پیغام اپنی کوئی ملک نہ املاک سمجھنا ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا اہل علم کی ذمہ داری: ایسے نازک موقع پر اہل علم پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کی خیر خواہی اورنصیحت کا حق ادا کرنے کے لیے آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں ؛ صراط مستقیم کی نشاندہی اور حق کی صدا بلند کریں ،کتنے ہی خوش نصیب اس ایک صدائِ مستانہ کے منتظر ہوں گے ، وہ صدا : جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپادے اس حق کی ادائیگی کے لیے لازم ہے کہ لوگوں کو ان کا بھلا اور برا سمجھا یا جائے ؛ہروہ