کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 153
دنیا بھر کی سخت ترین گرمی بھی جہنم کی ایک سانس ہے۔ اگر اس سانس کی تمازت اور حدت سے بدن جلتا ہے تو آگ اور شعلے کا عالم کیا ہوگا ؟؛وہ کوئلے کیسے دہکتے ہوں گے، جن میں انسان او رپتھر جل رہے ہوں گے۔ اس آگ کے ایک منظر کے متعلق اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں : ﴿ إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ‎﴿١٣﴾ (الفرقان: ۱۲۔۱۳) ’’ وہ آگ جو اپنے اندر ڈالے جانے والے مجرمین کو دور سے آتے ہوئے دیکھے گی تو لوگ غصہ کی وجہ سے اس کا بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے ؛ اور جب یہ لوگ جہنم کی کسی تنگ جگہ مشکیں کس کر پھینک دیے جائیں گے، تو وہاں اپنے لیے موت ہی موت کو پکاریں گے۔ ‘‘ اور فرمایا: ﴿ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ ‎﴿١٩﴾ (الحج: ۱۹) ’’ پس کافروں کے لیے آگ کے کپڑے بیونت کر کاٹے جائیں گے ؛ اور ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا ، (جس سے عذاب اور سخت ہوجائے گا ) ۔‘‘ گرم پانی میں نہانے سے بھاگنے والے ! ذرا اس گرم پیپ کا تصور کر جو سروں پر جہنم سے بہائی جائے گی۔ آج کروڑوں میل دور سورج کی گرمی سے بھاگ رہے ہیں ، اس دن سوا میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ لوگ اس گرمی میں بمطابق اعمال پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ کوئی پاؤں تک ؛ تو کوئی گردن تک۔ افسوس صد افسوس ! اس انسان کے لیے ہے ، جو ان باتوں کو سنتا بھی ہے ، اور مرنے پر یقین بھی رکھتا ہے ، اور یہ بھی مانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی بتائی ہوئی ہر بات سچ ہے ،